جرمن اتحاد کی تیسویں سالگرہ، کورونا نے تقریبات کو دھندلا دیا
3 اکتوبر 2020
ماضی کی مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے ہفتہ تین اکتوبر کو ٹھیک تیس برس پورے ہو گئے۔ رواں برس یوم اتحاد کی تقریبات اور خوشیاں کورونا وائرس کی وبا کے باعث دھندلا کر رہ گئیں۔
اشتہار
آج منائے جانے والے جرمنی کے یوم اتحاد کی تقریبات کا اہتمام محدود پیمانے پر کیا گیا اور ان پر بھی احتیاطی ضوابط حاوی رہے۔ یوں کورونا وائرس کی وبا نے جرمن اتحاد کے دن کی تمام پرمسرت تقریبات کو گہنا کر رکھ دیا۔ حکومتی سرپرستی میں ہونے والی تقریبات میں محدود تعداد میں مہمانوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خصوصی انتظامی ضابطوں کے تحت کم مہمانوں والی چھوٹی تقریبات کے انعقاد کو فوقیت دی گئی۔ ایسی تمام تقریبات کی باضابطہ نگرانی اضافی پولیس اہلکار کرتے رہے۔
یوم اتحاد کی مرکزی تقریب
اس سال جرمنی کے یوم اتحاد کی مرکزی سرکاری تقریب وفاقی دارالحکومت برلن سے پچیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع مشرقی صوبے برانڈن برگ کے دارالحکومت پوٹسڈام میں منعقد کی گئی۔
پوٹسڈام کے تاریخی چرچ آف سینٹ پال میں منعقدہ دعائیہ اور سیاسی تقریب میں وفاقی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر، وفاقی چانسلر انگیلا میرکل، وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کے اسپیکر وولف گانگ شوئبلے اور دیگر سرکردہ سیاستدانوں اور اعلیٰ اہلکاروں نے شرکت کی۔
اس تقریب کے لیے صرف ایک سو تیس مہمانوں کو دعوت دی گئی تھی اور جملہ حفاظتی اور احتیاطی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ممکنہ مظاہروں کے شرکاء کو اس گرجا گھر سے دور رکھنے کے لیے ڈھائی ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
جرمن اتحاد: ایک نئے عہد کا آغاز
یوم اتحاد کی اس مرکزی تقریب سے وفاقی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ جرمنی کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ ایک آزاد اور جمہوری اقدار کا حامل ملک ہے۔ انہوں نے ماضی کی مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی کوششوں میں شریک عوامی مظاہرین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مسلسل کوششوں سے تیس برس قبل ایسا پرامن انقلاب آیا کہ منقسم جرمنی پھر سے ایک متحدہ ملک بن گیا تھا۔
جرمن صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ جرمن اتحاد کی وجہ سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور پھر ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ صدر شٹائن مائر نے آج کے متحدہ جرمنی کو تاریخی اعتبار سے ایک بہترین ملک قرار دیا۔
جرمن اتحاد کے تیس برس: برلن شہر کا ماضی اور حال
سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد 3 اکتوبر 1989ء کو وجود میں آیا۔ دارالحکومت برلن منقسم جرمنی کی ایک علامت ہے۔ سردجنگ اور جرمن یوم اتحاد کا منظر پیش کرتے اس شہر کے تاریخی مقامات کے ماضی اور حال کی چند تصاویری جھلکیاں۔
برانڈن برگ گیٹ
یہ برلن کے مشہور ترین عوامی مقامات میں سے ایک ہے۔ برانڈن برگ گیٹ سن 1791 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ گیٹ سابقہ مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد کی نشاندہی بھی کرتا تھا۔ سن 1989ء کے موسم خزاں سے یہ گیٹ ایک رکاوٹ کے بجائے ایک نئے آغاز کی علامت بن چکا ہے۔
دیوار برلن
اٹھائیس سالوں تک اس دیوار نے برلن شہر کو منقسم رکھا۔ لگ بھگ 160 ساٹھ کلو میٹر کی اس سرحدی دیوار کے گرد سخت سکیورٹی نافذ تھی۔ متعدد افراد دیوار عبور کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہوگئے۔ ایسٹ سائڈ گیلری میں دیوار برلن کے زیادہ تر ٹکڑے جمع کیے گئے ہیں، جس پر قومی اور بین الاقوامی فنکار اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔
سن 1989 تک ہوہن شؤن ہاؤزن ریاستی سکیورٹی کی ایک مرکزی جیل تھی۔ اس حراستی مرکز میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا اور ان کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل کی اونچی دیواروں کی وجہ سے یہ ایک خفیہ مقام تھا اور یہ عمارت شہری نقشے میں شامل نہیں تھی۔ دوبارہ اتحاد کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ چند سالوں بعد اسے یادگار کے طور پر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
برلن میں لینن - فریڈرش شائن
سرخ گرینائٹ پتھر سے تعمیر کیا گیا لینن کا انیس میٹر اونچا دیو پیکر مجمسہ سن 1970 سے 1991ء تک فریڈرش شائن میں قائم تھا۔ اس مجمسہ کی نقاب کشائی کے موقع پر دو لاکھ افراد جمع ہوئے تھے۔ بیس برس بعد کمیونزم کے نظام کے خاتمےکے ساتھ ساتھ اس مجسمے کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ’لینن اسکوائر‘ اب ’اقوام متحدہ اسکوائر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ریپبلک پیلیس سے برلن محل تک
یہ محل جرمن ڈیموکریٹک ریبپلک (جی ڈی آر) کے اقتدار کا مرکز تھا۔ ریپبلک پیلیس آف برلن کا افتتاح سن 1976 میں کیا گیا تھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی متحدہ ریاست وجود میں آنے کے بعد سن 2006 سے 2008ء کے دوران اس محل کو مسمار کر دیا گیا۔ اب یہاں تاریخی برلن سٹی پیلیس کے ساتھ متنازعہ ہمبولٹ فورم تعمیر کیا گیا۔
جی ڈی آر کی انٹر شاپس
جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کی ایک ریٹیلر چین کا نام ’انٹر شاپ‘ تھا۔ اس شاپ میں جی ڈی آر کی کرنسی کے بجائے غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاسکتی تھی۔ اس وجہ سے جی ڈی آر کے شہری انٹر شاپس سے صرف خاص نوعیت کا سامان خریدتے تھے۔ یہ تصویر مشرقی برلن کے فریڈرش اشتراسے اسٹیشن کے پاس واقع انٹر شاپ کی ہے۔ آج یہ چوک متعدد دکانوں اور بوتیکس سے بھرا ہوا ہے۔
بچوں کے کھیل کے میدان
سابقہ مشرقی جرمنی کے ہر کھیل کے میدان میں یہ ’لوہے کے پنجرے نما گولے‘ موجود ہوتے تھے، جس پر بچے مل کر چڑھتے تھے۔ اب یہ جھولے رسی سے بندھے جال میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
تیرہ منزلہ ہوٹل
سن 1977 میں سابقہ مشرقی برلن کے علاقے فریڈرش اشتراسے پر تیرہ منزلہ انٹر ہوٹل میٹروپول کا افتتاح کیا گیا۔ کاروباری افراد، سفارت کار اور مشہور شخصیات اس ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ جی ڈی آر کے زیادہ تر شہری اس ہوٹل کا صرف باہر سے ہی نظارہ کرتے تھے۔ اب یہاں میریٹم ہوٹلز سلسلے کا ایک ہوٹل قائم ہے۔
مغرب کا شاپنگ سینٹر - کا ڈے وے
کاؤف ہاؤس دیس ویسٹینس یعنی مغرب کا شاپنگ سینٹر - جرمنی کا سب سے مشہور شاپنگ سینٹر ہے۔ 60 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر مشتمل یہ شاپنگ سینٹر سن 1907 میں کھولا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ سابقہ مغربی برلن میں واقع یہ شاپنگ سینٹر سیاحوں کے لیے ایک پر کشش مقام خیال کیا جاتا ہے۔
9 تصاویر1 | 9
کورونا سے متاثرہ یوم اتحاد
چرچ آف سینٹ پال کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے صدر شٹائن مائر نے کہا کہ جرمنی کا تیسواں یوم اتحاد معمول سے ہٹ کر منایا جانا تھا اور پوٹسڈام میں ہونے والی رنگ برنگی پرمسرت تقریبات میں اندرون ملک اور ہمسایہ ریاستوں سے بے شمار مہمانوں کی شرکت کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا، مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ اشارہ واضح طور پر کورونا وائرس کی مہلک وبا کی طرف تھا۔
صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے مزید کہا کہ جرمنی اپنے دوبارہ اتحاد کے بعد وسطی یورپ کا ایک آزاد اور بڑا جمہوری ملک ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں کئی مشکل وقت بھی دیکھنا پڑے اور خاص طور پر اتحاد سے پہلے اور بعد کے مشکل حالات کا ناقدانہ جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
اشتہار
سابقہ مغربی اور مشرقی علاقوں میں تفاوت
جرمن صدر نے پچھلی تین دہائیوں کی غلطیوں اور ناانصافیوں پر کھلی بحث کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ اس تقریر میں جرمن صدر نے دونوں طرف (سابقہ مغربی اور مشرقی جرمنی میں) پائی جانے والی اقتصادی اور معاشرتی تفریق پر بھی توجہ مرکوز کی اور اس کے خاتمے کی کوششوں کو تیز تر کر دینے کو اہم قرار دیا۔
328 دن: انقلاب سے ریاستی معاہدے تک
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
جرمن صدر کی تقریر میں مشرقی اور مغربی صوبوں میں پائی جانے والی تفریق کے تناظر میں حال ہی میں عوامی آراء پر مبنی ایک تازہ جائزے کے نتائج بھی یوم اتحاد کے موقع پر عام کیے گئے۔ اس سروے کے نتائج ’یُو گوو‘ نامی ادارے کے محققین نے مرتب کیے۔
سروے کے مطابق دو تہائی جرمن عوام کا کہنا ہے کہ ریاستی اتحاد سے وابستہ کی گئی توقعات ابھی تک کلی طور پر پوری نہیں ہوئیں۔ رائے دہندگان نے یہ بھی کہا کہ سابقہ مشرقی جرمن علاقے کے عوام کے مجموعی اوسط حالات ویسے نہیں جیسے پرانے مغربی صوبوں کے ہیں۔
اس عوامی سروے کے مطابق سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کے 83 فیصد عوام کا خیال یہ ہے کہ ریاستی انضمام کا عمل اب بھی نامکمل ہے۔
اس کے برعکس مغربی حصے پر مشتمل سابقہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے انسٹھ فیصد باشندے اس اتحاد کے عمل کو ابھی تک نامکمل سمجھتے ہیں۔
ع ح / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔