آج سے تیس برس قبل منقسم جرمنی کا دوبارہ انضمام ہوا۔ اس وقت سابقہ سوویت یونین میں کے رہنما میخائل گورباچوف کا جرمنی میں ایک ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا مگر روس میں انہیں تنقید کا سامنا رہا۔
اشتہار
میخائل گورباچوف سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کے آخری حکمران تھے۔ ان کے دور اقتدار میں خاص طور پر یورپ اور وسطی ایشیا میں پیدا ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے تناظر میں اور ملک کے اندر لائی جانے والی سماجی و معاشی و حکومتی انتظامی تبدیلیوں پر انہیں عمومی طور پر شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ان وسیع تبدیلیوں پر آج بھی ان کے کردار پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
گوربا چوف پر تنقید کیوں؟
میخائل گورباچوف پر سب سے بڑا تنقیدی نکتہ یہ ہے کہ گورباچوف نے معاہدے پر دستخط کرنے پر برلن حکومت سے بہت کم رقم حاصل لی تھی۔ اسی طرح وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی اپنے ملک کی مشرقی سرحدوں کی جانب توسیع کو روکنے میں بھی ناکام رہے۔
'ٹو پلس فور‘ معاہدہ
بارہ ستمبر سن 1990 کو میخائل گورباچوف اور جرمن چانسلر ہیلمُوٹ کوہل کی رضامندی سے ماسکو میں ایک 'ٹو پلس فور‘ معاہدے پر اس وقت کے مشرقی و مغربی جرمنی کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کی توثیق دوسری عالمی جنگ کے چار فتح مند ممالک یعنی سابقہ سوویت یونین، برطانیہ، امریکا اور فرانس نے بھی کی۔ اس سات صفحاتی دستاویز کو جرمنی سے متعلق حل طلب معاملات کا حتمی معاہدہ قرار دیا گیا۔
معاہدے کی تفصیلات
اسی معاہدے کی روشنی میں جرمنی کی دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد لائی گئی تقریباً چار دہائیوں پر محیط تقسیم اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔ معاہدے میں نیٹو میں جرمنی کی رکنیت اور سرحدی معاملات کو بھی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی کی مکمل جغرافیائی حاکمیت کو بحال کر دیا گیا۔ متحدہ جرمن ریاست کی سکیورٹی کی بھی بحالی ہو گئی۔ اسی معاہدے کی روشنی میں سابقہ مشرقی جرمنی میں متعین روسی افواج کی واپسی کے عمل کو بھی طے کیا گیا۔ یہ مذاکرات مئی سے ستمبر 1990ء تک جاری رہے، حالانکہ نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام کے فوری بعد ابتدائی بات چیت ہوئی تھی۔
اشتہار
ماسکو کے نقطہ نظر میں تبدیلی
1990ء کے آغاز میں ماسکو کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا تھا۔ میخائل گورباچوف نے اپنی ایک یادداشت میں لکھا، '' ایک داخلی اجلاس میں اس پر اتفاق تھا کہجرمنی کے اتحاد کو روکنا ناممکن ہے۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چاروں فاتح ممالک اور جرمنی کے دونوں حصوں کے مابین بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور سوویت دستوں کے انخلاء کے امکانات کو دیکھا جائے۔‘‘
328 دن: انقلاب سے ریاستی معاہدے تک
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
پیش رفت
اس ضمن میں جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں ایک اہم پیش رفت دس فروری سن 1990 کو سامنے آئی۔ کوہل نے اپنی ڈائری مئیں لکھا ہے ،''گورباچوف نے منقسم جرمنی کے رہنماؤں اور دوسری عالمی جنگ کی فاتح چار اقوام کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی حمایت کی۔گورباچوف نے منقسم جرمن ریاستوں کے داخلی معاملات کو حل کرنے پر بھی رضامندی دی تھی۔‘‘ اس موقع پر سابقہ سوویت یونین کے لیڈر پر واضح کیا گیا کہ منقسم جرمن ریاستوں کی تقسیم کا معاملہ فاتح قوتوں سے تعلق نہیں رکھتا اور انہیں اپنا مستقبل خود سے طے کرنے کا حق ہے۔
گورباچوف کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمن اتحاد کے معاہدے سے قبل انہیں جرمن علاقوں میں متعین امریکی و برطانوی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح امریکی جوہری ہتھیاروں کی واپس امریکا منتقلی بھی اہم معاملہ تھا اور سوویت رہنما اس پر بھی خاموش رہے۔ جرمن معاملے کو حل کرنے کے سلسلے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ مشکلات کی شکار روسی اقتصادیات کی بحالی کے لیے گورباچوف کم رقم پر راضی ہو گئے تھے، تب پانچ بلین ڈوئچ مارک (موجودہ تقریباً ڈھائی بلین یورو) دیے گئے تھے۔ اس تناظر میں گورباچوف اور کوہل کے درمیان ابتدائی مذاکرات میں عدم اطمینان بھی دیکھا گیا تھا۔