جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن میں مہاجرین کو غیر قانونی طور پر پناہ دینے کے واقعات کے حوالے سے نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔ پناہ گزینوں کو سیاسی پناہ دینے کے فیصلوں میں کیسے جوڑ توڑ کی گئی؟ پڑھیے اس رپورٹ میں
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ( ڈی پی اے) نے بتایا ہے کہ ’بی اے ایم ایف‘ میں ہونے والی ان بےقاعدگیوں میں ایک مترجم اور ایک ثالث کے ملوث ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تین اپریل سے اس سلسلے میں بریمن کے ایک مترجم پر شک کیا جا رہا تھا کہ وہ غلط اعداد و شمار پیش کرنے کے لیے ہر غیر ملکی سے پانچ سو یورو لیتا تھا، ’’ان غیر ملکیوں کو ایک تیسرا شخص اس مترجم کے پاس بھیجتا تھا۔ یہ مترجم خاص طور پر جرمنی میں داخل ہونے کی تاریخ اور شناخت کی تفصیلات میں رد و بدل کرنے کے بعد انہیں بی اے ایم ایف کو پیش کرتا تھا۔‘‘
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مترجم کے پاس تارکین وطن اور مہاجرین کو بھیجنے کا کام اس کے ایجنٹ کرتے تھے۔ ثالثی کرنے والے افراد کو اس کام کے عوض پچاس یورو فی مہاجر دیے جاتے تھے۔ بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ فی الحال سیاسی پناہ کی مزید کسی درخواست پر کام یا اس پر فیصلہ نہیں کر سکتی۔
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Dietze
13 تصاویر1 | 13
دفتر استغاثہ کو شک ہے کہ اس ادارے کی جانب سے 2013ء سے 2016ء کے دوران ناکافی ثبوت اور دستاویزات رکھنے والے کم از کم بارہ سو افراد کو غلط طریقے سے سیاسی پناہ دی گئی۔ حکام نے بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ کی سابق سربراہ کو بھی شامل تفتیش کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کی سربراہ کے خلاف بھی ایک مقدمہ درج ہے۔
بی اے ایم ایف کی ایک داخلی رپورٹ کے مطابق سیاسی پناہ کے متعدد واقعات میں دانستہ طور پر قانونی ضابطوں اور دفتری قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد ہجرت اور پناہ گزین کے امور سے متعلق یہ جرمن اداراہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔