جرمن ادب کا باخ مان پرائز سلووینیہ کی مصنفہ آنا مروان کے نام
26 جون 2022
جرمن زبان میں لکھے جانے والے ادب کا امسالہ اِنگے بورگ باخ مان پرائز سلووینیہ کی مصنفہ آنا مروان نے جیت لیا ہے۔ اس وقت بیالیس سالہ آنا مروان جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں رہتی ہیں اور جرمن زبان میں لکھتی ہیں۔
اشتہار
آنا مروان کو جرمن زبان کے ادب کا یہ مؤقر انعام دینے کا فیصلہ آسٹریا کے شہر کلاگن فُرٹ میں کیا گیا۔ اسی آسٹرین شہر میں اتوار چھبیس جون کو وہ کئی روزہ چھیالیسواں ادبی اجتماع بھی اپنے اختتام کو پہنچا، جو 'جرمن زبان میں لکھے جانے والے ادب کے دن‘ کہلاتا ہے اور جس کا اختتام آنا مروان کو اِنگے بورگ باخ مان پرائز دیے جانے کی تقریب کے ساتھ ہوا۔
یہ جرمن ادبی انعام ہر سال دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس اعزاز کے حق دار مصنف یا مصنفہ کو 25 ہزار یورو کی نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔ سال رواں کا اِنگے بورگ باخ مان پرائز جیتنے والی آنا مروان آسٹریا کے صوبے زیریں آسٹریا میں رہتی ہیں۔
آنا مروان کو یہ ادبی اعزاز دینے کا فیصلہ کرنے والی جیوری نے اپنے فیصلے میں کہا، ''آنا مروان آبائی طور پر تو سلووینیہ سے تعلق رکھتی ہیں، مگر وہ جرمن زبان میں اپنی تخلیقی سوچ اور تصنیفات کو شکل ایسے دیتی ہیں کہ جیسے وہ کسی دوسری زبان والے معاشرے میں کبھی رہی ہی نہ ہوں۔ وہ اپنی تصنیفات میں جرمن زبان کو اپنی ذات سے بھی آگے رکھتے ہوئے چلتی ہیں۔‘‘
اس سال کلاگن فُرٹ میں جرمن زبان کے ادب کا یہ سالانہ اجتماع کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دو سال تک مکمل یا جزوی منسوخی کے بعد پہلی اس طرح منعقد ہوا کہ اس میں جرمن زبان میں لکھنے والے 14 ادیبوں نے ذاتی طور پر کئی روز کے لیے شرکت کی۔
یہ انعام آسٹریا کی مشہور ادیبہ اِنگے بورگ باخ مان کے نام پر جاری کیا گیا تھا، جو کلاگن فُرٹ ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1926ء میں پیدا ہونے والی باخ مان کا انتقال 1973ء میں ہوا تھا۔
آنا مروان کا ردعمل
آنا مروان نے اِنگے بورگ باخ مان انعام وصول کرنے کے بعد اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ ان کے لیے یہ انعام حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز ہے اور اس کے لیے وہ جیوری کی شکر گزار بھی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرا خیال ہے کہ میری تحریریں مجھ سے کہیں زیادہ اچھی باتیں کرتی ہیں۔‘‘
آنا مروان نے سلووینیہ کے دارالحکومت لبلیانہ کی یونیورسٹی سے زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی تھی اور 1980ء میں پیدا ہونے والی یہ مصنفہ 25 برس کی عمر میں اعلیٰ ادبی تعلیم کے لیے ویانا آئی تھیں، جس کے بعد آسٹریا ہی تقریباﹰ ان کا وطن بن گیا۔ ان کا جرمن زبان میں لکھا گیا پہلا ناول تین سال قبل شائع ہوا تھا۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
بُکر پرائز: ادبی روایت تبدیل کرنے والے ادیب
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔