جرمن ادب کے اردو تراجم: ڈی ڈبلیو کا نیا خصوصی سلسلہ
31 جنوری 2019
ڈی ڈبلیو اردو نے اپنے ادب دوست، خاص طور پر جرمن زبان کے ادب میں دلچسپی کے حامل قارئین کے لیے ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں آپ کو انتہائی منفرد جرمن ادیب کافکا کی تحریروں سے متعارف ہونے کا موقع ملے گا۔
اشتہار
اس دوران تجرباتی بنیادوں پر کل دس ہفتوں تک آپ ہماری ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر شہرہ آفاق جرمن ادیب فرانز کافکا کی دس بہت معروف تماثیل کے جرمن زبان سے براہ راست اردو میں تراجم سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ ابتدائی طور پر یہ سلسلہ صرف فرانز کافکا کی تماثیل تک محدود رکھا جائے گا اور آپ ہر ہفتے کافکا کی ایک مختلف تصنیف اردو میں پڑھ سکیں گے۔ اس بارے میں آپ کی طرف سے تعریفی یا تنقیدی کسی بھی طرح کی رائے کا اظہار ہمیں اپنی اس کاوش کی کامیابی کا اندازہ لگانے میں مدد دے گا، جس کے لیے ڈی ڈبلیو شعبہ اردو آپ کا شکر گزار بھی ہو گا۔
قانون کے آگے (1)
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
قانون کے آگے ایک چوبدار کھڑا تھا۔ اس محافظ تک پہنچ کر ایک دیہاتی نے اس سے درخواست کی کہ اسے قانون میں داخلے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن چوبدار نے کہا کہ وہ اسے اس وقت تو داخلے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
دیہاتی کچھ دیر تو سوچتا رہا اور پھر اس نے پوچھا کہ آیا اسے بعد میں داخلے کی اجازت مل سکتی ہے؟ ’’یہ ممکن ہے،‘‘ دروازے پر کھڑے محافظ نے کہا، ’’لیکن اس وقت نہیں۔‘‘
قانون کا دروازہ چونکہ ہمیشہ کی طرح کھلا تھا اور محافظ دوبارہ دروازے کے ایک طرف جا کر کھڑا ہو چکا تھا، اس لیے دیہاتی نے تھوڑا سا آگے کو جھک کر دروازے میں سے جھانکتے ہوئے اندر کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ دربان نے یہ دیکھا تو ہنسا اور بولا، ’’اگر تمہارے لیے اس میں اتنی ہی کشش ہے تو میرے منع کرنے کے باوجود اندر جانے کی کوشش بھی کر ہی لو۔ لیکن یاد رکھنا: میں بہت طاقت ور ہوں۔ اور میں تو سب سے باہر والا محافظ ہوں۔ اندر ایک کے بعد ایک بڑے بڑے ہال ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سے ایک طاقت ور دربان کھڑا ہے۔ ان میں سے تو صرف تیسرا ہی محافظ ایسا تھا کہ خود میں بھی اسے دیکھنے تک کا متحمل نہیں ہو سکا تھا۔‘‘
دیہی علاقے سے آنے والے آدمی کو تو ایسی مشکلات کی کوئی توقع ہی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ قانون تک رسائی تو ہر کسی کے لیے ہر وقت ممکن ہونا چاہیے۔ لیکن پھر جب اس نے کسی جانور کی کھال کا بنا اوورکوٹ پہنے ہوئے محافظ کو غور سے دیکھا، اس کی بڑی، نوکیلی ناک اور اس کی لمبی، باریک، سیاہ تاتاری داڑھی پر غور کیا، تو اس نے فیصلہ یہ کیا کہ وہ اس وقت تک انتظار ہی کر لے گا جب تک کہ اسے داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔
محافظ نے اسے چار ٹانگوں والا لکڑی کا ایک سٹول لا دیا اور ساتھ ہی اسے یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ دورازے کے قریب ہی لیکن ایک طرف ہو کر سٹول پر بیٹھ جائے۔ دیہاتی وہاں کئی دن، مہینے اور سال بیٹھا رہا۔
اس نے کئی بار کوشش کی کہ اسے اندر جانے دیا جائے۔ اس نے دربان کی منتیں کر کر کے بھی اسے تھکا مارا۔ دربان اکثر اس سے چھوٹے چھوٹے سرسری سوال پوچھتا، کبھی اس کے آبائی علاقے کے بارے میں تو کبھی کئی طرح کے دوسرے معمولی سوال۔ لیکن فاصلوں کے مظہر اور ذاتی دلچسپی سے عاری یہ سب سوال ایسے ہوتے جیسے بڑے مالک یا آقا پوچھتے ہیں۔ آخر میں وہ اس دیہاتی کو ہر بار یہی کہتا کہ وہ اسے ابھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
دیہاتی اپنے اس سفر کے لیے کافی کچھ ساتھ لایا تھا۔ اس نے سبھی کچھ استعمال کر کے دیکھ لیا، چاہے وہ جتنا بھی قیمتی تھا، کہ کسی طرح محافظ کو رشوت دے کر ہی آمادہ کر لے۔ دربان نے یہ سب کچھ لے بھی لیا، لیکن ہر بار ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتا، ’’میں یہ صرف اس لیے لے رہا ہوں کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تم نے اپنی کوشش میں کوئی کسر چھوڑ دی تھی۔‘‘
ان کئی برسوں میں یہ شخص اس محافظ کا تقریباً بغیر کسی وقفے کے مشاہدہ کرتا رہا تھا۔ اسے باقی سب محافظ بھول گئے تھے۔ اسے یہ پہلا محافظ ہی قانون میں اپنے داخلے کی راہ میں واحد رکاوٹ نظر آتا تھا۔ وہ اس ناخوشگوار اتفاق کو شروع کے برسوں میں بڑی لاپرواہی سے اور کافی اونچی آواز میں کوستا اور گالیاں دیتا رہتا۔ بعد کے برسوں میں جب وہ بوڑھا ہو گیا، تو بس ہلکی آواز میں بڑبڑاتا ہی رہتا۔
وہ چھوٹے بچوں جیسا ہو گیا تھا۔ محافظ کے سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے دوران وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ دربان کے کسی جانور کی کھال کے بنے اوورکوٹ کے کالر میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ ان جوؤں سے بھی درخواست کرتا کہ وہ اس کی مدد کرتے ہوئے کوشش کریں کہ محافظ اپنی رائے بدل دے۔
بالآخر اس کی آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ گئی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ آیا واقعی اس کے ارد گرد اندھیرا زیادہ ہو گیا تھا یا اس کی آنکھیں محض اسے دھوکا دے رہی تھیں۔ لیکن اتنا تو ہو گیا تھا کہ وہ اب اندھیرے میں بھی اس چمک کو پہچان لیتا تھا، جو قانون کے دروازے سے اس طرح پھوٹتی کہ اس کا ماند پڑ جانا ممکن ہی نہیں تھا۔
اب تو وہ دیہاتی زندہ بھی نہیں رہا۔ اس کی موت سے پہلے اس پورے عرصے کے دوران ہونے والے تمام تجربات اس کے ذہن میں جمع ہو کر ایک ایسا سوال بن گئے تھے، جو اس نے قانون کے دربان سے آج تک کبھی پوچھا ہی نہیں تھا۔
اس کا جسم اکڑتا جا رہا تھا، جسے وہ سیدھا رکھنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ اس نے محافظ کو ہاتھ سے اشارہ کیا تو اسے دیہاتی کے قریب آ کر بہت نیچے تک جھکنا پڑا تھا۔ دونوں کے قد میں اب بہت زیادہ فرق کا نقصان تو دیہاتی ہی کو ہوا تھا۔ ’’اب کیا جاننا چاہتے ہوں تم؟‘‘ دربان نے بیزاری سے پوچھا، ’’تمہاری تو (سوالوں کی) بھوک کبھی ختم ہوتی ہی نہیں۔‘‘
’’ہر کوئی ظاہر ہے قانون تک رسائی چاہتا ہے،‘‘ دیہاتی نے کہا تھا، ’’پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے برسوں میں میرے سوا کسی نے اندر جانے کی اجازت ہی نہیں مانگی؟‘‘ محافظ تب جان گیا تھا کہ وہ آدمی اپنے انجام کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
وہ دیہاتی کی ختم ہوتی ہوئی سماعت تک پہنچنے کے لیے دھاڑتے ہوئے بولا تھا، ’’یہاں تو کسی اور کو داخلے کی اجازت مل ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ دروازہ تو تھا ہی صرف تمہارے لیے۔ میں جاتا ہوں اب، اسے بند کرنے کے لیے۔‘‘
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔