جرمن ادب کے امسالہ گیورگ بیُوشنر پرائز کے حقدار لُٹس زائلر
18 جولائی 2023
جرمن زبان میں لکھے گئے ادب کا ہر سال دیا جانے والا اہم ترین اعزاز گیورگ بیُوشنر پرائز اس سال لُٹس زائلر کو دیا جائے گا۔ اس وقت ساٹھ سالہ لُٹس زائلر ایک مشہور شاعر بھی ہیں اور متعدد ناولوں کے انعام یافتہ مصنف بھی۔
لُٹس زائلر 1963ء میں مشرقی جرمن شہر گیرا میں پیدا ہوئے تھےتصویر: Eberhard Thonfeld/IMAGO
اشتہار
لُٹس زائلر (Lutz Seiler) کا تعلق جرمنی سے ہے اور انہیں اس سال کا گیورگ بیُوشنر پرائز دینے کا فیصلہ جرمن اکیڈمی برائے زبان و ثقافت نے منگل 18 جولائی کے روز کیا۔
اپنے فیصلے میں اس اکیڈمی کی جیوری نے کہا، ''لُٹس زائلر کو یہ اعزاز دینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ یہ ایک ایسے ادیب کی خدمات اور ادبی تخلیقات کا اعتراف ہے، جنہوں نے پہلے تو گنگناتی ہوئی شاعری کی کئی کتابیں لکھیں اور پھر اسی دوران اپنے لیے ایک منفرد نثری بیانیے کا راستہ بھی دریافت کیا۔ لیکن اپنی نثری تخلیقات کی لسانیاتی پہچان کے لحاظ سے بھی لُٹس زائلر ایک گیت نگار ہی رہے، جن کی آسانی سے سمجھ آنے والی نثر بھی اتنی ہی ٹھوس اور اندھیروں میں روشنی پھیلانے والی ہے جتنی کہ ان کی شاعری۔‘‘
اشتہار
طویل ادبی روایت کی شاندار بازگشت
گیورگ بیوُشنر پرائز 2023ء کے حقدار ادیب کے طور پر لُٹس زائلر کا انتخاب کرتے ہوئے جرمن اکیڈمی آف لینگوئج اینڈ کلچر کی جیوری نے مزید لکھا، ''زائلر کی تخلیقات ایک طویل ادبی روایت کی دل سے نکلنے والی لیکن شاندار بازگشت بھی ہیں۔‘‘
لُٹس زائلر کو یہ انعام اس سال جرمنی کے مغربی شہر دارمشٹڈ میں چار نومبر کو منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دیا جائے گا۔ اس اعزاز کے ساتھ انہیں 50 ہزار یورو (56 ہزار ڈالر) کا نقد انعام بھی دیا جائے گا۔
انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پیدا ہونے والے جرمن ڈرامہ نویس گیورگ بیوشنر جو صرف چوبیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، گیورگ بیوشنر پرائز انہی سے موسوم ہےتصویر: dpa/picture alliance
اس سے قبل لُٹس زائلر کو 2014ء میں ان کے اولین ناول 'کرُوزو‘ کی وجہ سے جرمن بک پرائز بھی مل چکا ہے اور 2020ء میں انہیں ان کے ناول 'سٹار 111‘ کی وجہ سے لائپزگ بک فیئر پرائز بھی دیا گیا تھا۔
گیورگ بیوُشنر پرائز ہے کیا؟
گیورگ بیوُشنر پرائز ایک ایسا ادبی انعام ہے، جو 1951ء سے ہر سال دیا جاتا ہے۔ یہ جرمن زبان میں لکھنے والے کسی ادیب یا ادیبہ کو ہی دیا جاتا ہے۔ ایسے کسی بھی ادیب کا تعلق جرمنی کے علاوہ آسٹریا یا سوئٹزرلینڈ سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ کسی ملک کی قومی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے دیا جانے والا ادبی اعزاز نہیں بلکہ یہ ان سبھی ممالک کے لیے ہے، جہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے اور جہاں کے ادیب جرمن زبان میں لکھتے ہیں۔
یہ انعام ہر سال کسی ایسی ادبی شخصیت کو دیا جاتا ہے، جس نے اپنی تصنیفات کے ذریعے نہ صرف نمایاں خدمات انجام دی ہوں بلکہ ساتھ ہی عہد حاضر میں جرمن زبان و ثقافت کی ترویج میں بھی اہم کردار اد اکیا ہو۔
لُٹس زائلر کی شخصیت
لُٹس زائلر کا تعلق پیدائشی طور پر جرمنی کی وفاقی ریاست تھیورنگیا سے ہے۔ ان کا وطن کا تصور ایسا ہے، جو ان کی شاعری اور نثری تخلیقات میں بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ادب کے نوبل انعام سے متعلق تین دلچسپ حقائق
01:56
This browser does not support the video element.
اپنے گیورگ بیوُشنر پرائز کا حقدار قرار دیے جانے کے بعد لُٹس زائلر نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''وہ سب کچھ، جو میں لکھتا ہوں، اس میں میرا اپنا پس منظر اور اس کی ساری کہانی غالباﹰ ایک کافی بڑا کردار ادا کرتے ہیں، ایک ایسے آبائی علاقے سے تعلق کی کہانی، جہاں تھیورنگیا کے قدرتی منظر نامے کو وہاں یورینیم کی کان کنی کی صنعت نے ماضی میں بری طرح تباہ کر دیا تھا۔‘‘
لُٹس زائلر سرد جنگ کے زمانے میں، جب آج کا متحدہ وفاقی جمہوریہ جرمنی ابھی منقسم اور مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل کمیونسٹ اور وفاقی جمہوری ریاستوں پر مشتمل تھا، 1963ء میں شہر گیرا (Gera) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ادب میں دلچسپی اور پھر ادیب بننے کا عمل دونوں ہی تاخیر سے شروع ہوئے لیکن ان میں ان کی زندگی کے ان تجربات نے کلیدی کردار ادا کیا، جو انہیں سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کی فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے ہوئے تھے۔
تین بالغ بچوں کے والد زائلر اپنی سویڈش اہلیہ کے ساتھ گزشتہ کافی عرصے سے یا تو سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں رہتے ہیں، یا پھر جرمن صوبے برانڈن برگ میں، جہاں وہ پیٹر ہوشیل ہاؤس کے ادبی پروگرام کے سربراہ ہیں۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
بُکر پرائز: ادبی روایت تبدیل کرنے والے ادیب
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔