جرمن اسلحہ کمپنیوں پر یمن میں جنگی جرائم میں مدد کا الزام
12 دسمبر 2019
جرمنی کی غیر سرکاری تنظیموں نے ہتھیاروں کی برآمدات کے تعلق سے جرمن حکومت اور بعض اسلحہ ساز کمپنیوں پر جنگی جرائم میں اعانت کا الزام عائد کیا ہے۔
اشتہار
اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے بدھ 11 دسمبر کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں ممکنہ جنگی جرائم میں مدد کے خلاف ایک مقدمہ بھی دائر کیا گيا گيا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کی علمبردار متعدد تنظیموں نے مشترکہ طور پر یمن کی جنگ میں ملوث سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ہتھیار فراہم کرنے پر جرائم پر مبنی ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔
اس عرضی میں دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی بڑی جرمن کمپنی 'رائن میٹال‘ اور یورپی جہاز ساز کمپنی 'ایئر بس‘ کے خلاف خاص طور پر شکایت درج کرائی گئی ہے۔ دفاعی مقاصد کے لیے کام کرنے والا ایئر بس کا اہم مرکز جرمنی میں ہی واقع ہے۔
برلن میں واقع تنظیم 'یوروپین سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس‘ (ای سی سی ایچ آر) اور ایک یمنی گروپ 'مواتانہ‘ نے ان دو کمپنیوں پر یمن کی شہری آبادی پر حملوں کی اعانت کا الزام عائد کیا ہے۔ شکایت میں کہا گيا ہے کہ سکولز اور ہسپتالوں پر ہدف بنا کر حملہ کرنا ایئر بس اور رائن میٹال جیسی کمپنیوں کے ذریعے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔
دونوں کمپنیوں نے ان الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ انھوں نے سب کچھ قانون کے مطابق کیا ہے۔ ایئر بس نے اپنے ایک بیان میں کہا: ''فوجی ساز و سامان کی برآمدادت پر آخری فیصلہ جرمن حکومت کی منظوری کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات کے تعلق سے جرمنی کے قوانین سخت ترین قوانین میں سے ایک ہیں۔‘‘
جرمنی میں ہتھیاروں کی سپلائی سے متعلق سخت ترین اصول و ضوابط اور قوانین کے باوجود جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت پر ہتھیاروں کی برآمدات کے حوالے سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے، خاص طور پر سعودی عرب کو ہتھیار فراہم کرنے کے حوالے سے۔
ہتھیاروں سے متعلق جرمنی کے سخت ترین اصول و ضوابط کے تحت مسلح تنازعات میں ملوث ممالک کے لیے، جب تک وہ اپنے ذاتی دفاع کے لیے نہ ہوں، ہتھیاروں کی برآمدات ممنوع ہے۔ سنہ 2018ء میں چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت نے یمن کی جنگ میں ملوث ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے ایک معاہدے پر دسخط کیے تھے۔ اسی برس اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کے فوری بعد برلن نے سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی مکمل طور بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس برس کے اوائل میں اس سے متعلق ڈی ڈبلیو کی ایک تفتیشی رپورٹ میں پایا گيا تھا کہ ان کاوشوں کے باوجود یمن کی جنگ میں جرمن ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کا استعمال ہوتا رہا ہے۔
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔