سن 2019 کے دوران جرمن اسلحے کی برآمد میں پینسٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سن 2018 کے مقابلے میں یہ اضافہ غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔
اشتہار
جرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق برلن حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت سے 8.8 بلین (7.95 یورو) امریکی ڈالر حاصل ہوئے ہیں۔ جرمن وزارت اقتصادیات نے یہ اعداد و شمار پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لنکے کے ایک رکن کے سوال پر بتائے ہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی کے ایک رکن نے بھی کر رکھا تھا۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کی یہ فروخت برلن حکومت کی باضابطہ منظوری سے کی گئی تھی۔ اس اسلحے میں ہتھیاروں کے علاوہ فوجی گاڑیاں اور جنگی بحری جہاز بھی شامل ہیں۔ تین سال قبل جرمن اسلحے کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ کیا تھا، سن 2019 میں یہ فروخت اُس ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ جرمن ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت سن 2019 کے وسط ہی میں گزشتہ برس یعنی سن 2018 سے بڑھ گئی تھی۔ جون سن 2019 تک جرمن اسلحے کی فروخت سے 5.3 بلین ڈالر حکومتی خزانے میں شامل ہوئے تھے۔
جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر کا کہنا ہے کہ جرمن اسلحے میں فروخت میں اضافے کی وجہ مختلف علاقوں میں پائی جانے والی فوجی رسہ کشی اور عسکری تنازعات ہیں۔ سن 2019 میں سب سے زیادہ جرمن اسلحہ یورپی ملک ہنگری نے خریدا۔ ہنگری نے 1.77 بلین ڈالر کے جرمن ہتھیار حاصل کیے۔
ہنگری کے دائیں بازو کے قوم پرست وزیر اعظم وکٹور اوربان اس وقت اپنے ملک کی فوج میں انتہائی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کی حکومت نے اسلحے کی مجموعی درآمد میں سے ایک چوتھائی ہتھیار اور فوجی سامان جرمنی سے خریدنے کی منظوری دے رکھی ہے۔
یورپی امن دوست حلقوں نے جرمنی کی جانب سے یمنی خانہ جنگی کے بعض فریقوں کو ہتھیاروں کی بدستور فراہمی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ برلن حکومت یمنی جنگ میں شریک ممالک کو ہتھیار فراہم نہ کرنے پر سن 2018 میں رضامند ہو گئی تھی۔ برلن حکومت نے سعودی عرب کو بھی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں اسلحہ بیچنے پر فی الحال پابندی عائد کر رکھی ہے۔
مائیکل مارٹن (ع ح ⁄ ع ب)
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔