جرمن اسکولوں میں یکساں مواقع بڑھ رہے ہیں، او ای سی ڈی
23 اکتوبر 2018
اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم کے تازہ جائزے کے مطابق جرمنی میں مالی طور پر پسماندہ گھرانوں کے بچے بدستور خوشحال گھرانوں کے اپنے ساتھی طلبہ سے پیچھے ہیں۔ تاہم تعلیم کے شعبے میں سماجی شمولیت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
اشتہار
اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے اس تازہ جائزے کے مطابق جرمن اسکولوں میں ابھی بھی سماجی پس منظر بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے میں واضح کیا گیا ہے کہ جرمنی کا مقابلہ اگر کئی دیگر ممالک سے کیا جائے تو یہاں کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کو زیادہ محرومیوں کا سامنا رہا ہے تاہم اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔
او ای سی ڈی کا جائزہ
جرمن سکولوں میں فطرت سے متعلق سائنس کی اگر بات کی جائے تو غریب گھرانوں کے طلبہ خوشحال خاندانوں کے بچوں سے کم از کم ساڑھے تین سال پیچھے ہیں۔ تاہم یہ نتائج آج سے دس سال پہلے کے نتیجے سے بہتر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلٰی تعلیم یافتہ والدین کے بچوں کے کسی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے امکانات مناسب قابلیت رکھنے والے والدین کے بچوں سے زیادہ ہیں۔
اسکول کے پہلے دن جرمن اپنے بچوں کو ’کاغذی کون‘ کیوں دیتے ہیں
ایلیمنٹری اسکول کا آغاز جرمنی میں کسی فرد کی زندگی کا اہم دن تصور کیا جاتا ہے، بالکل گریجویشن یا شادی کی طرح۔ اس دن کے لیے والدین خاصے پیسے خرچ کر کے تحائف خریدتے ہیں، مگر ایک چیز لازم ہے، ’کاغذی کون‘۔
تصویر: imago/Kickner
کون تحائف سے بھری ہوئی
اسکول کے پہلے دن کو جرمن زبان میں ’شُول ٹؤٹے‘ یا ’اسکول کا تھیلا‘ یا ’اسکول کون‘ کہلاتا ہے۔ اس دن کے بعد کسی بچے نے اگلے بارہ یا تیرہ برس تک روز اسکول جانا ہوتا ہے، اسی لیے اس کا آغاز ’میٹھے انداز‘ سے کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں بچے کو اسکول کے پہلے دن ٹافیاں اور تحائف دینے کی رسم انیسویں صدی سے جاری ہے۔
تصویر: imago/Kickner
نئے دور کا آغاز
اگست یا سمتبر میں اسکول کے آغاز کے وقت جرمنی میں زیادہ تر بچوں کی عمر چھ برس ہوتی ہے، تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس جرمن صوبے میں رہتے ہیں۔ ان بچوں میں سے اکثریت ایسی ہوتی ہے، جو پہلے ہی ڈے کیئر یا پری اسکول دیکھ چکے ہوتے ہیں، تاہم یہ مقامات باقاعدہ تعیلمی مراکز نہیں ہوتے۔ اسکول کی پہلی جماعت کسی بچے کے لیے ایک نئی دنیا ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
درست بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل والدین ان پہلی جماعت کے بچوں کے لیے پشتی بستہ، جسے جرمن زبان میں ’شول رانسین‘ کہا جاتا ہے، خریدتے ہیں۔ یہ عموما مربع شکل کے ہوتے ہیں، تاکہ گھر سے دیا جانے والا کھانا دب نا جائے اور اندر موجود کاغذ ٹیڑھے میڑھے نہ ہو۔ بعد میں اسکول جانے والوں کے لیے شاید بستے سے زیادہ جینز کا برینڈ اہم ہو، مگر پہلی جماعت کے بچے کے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
بستہ خریدے کے بعد والدین کو بچوں کے لیے پین، پینسلیں، اسکیل اور فولڈر خریدنا ہوتے ہیں۔ جرمنی میں کم عمر بچوں کو اسکول میں دوپہر کا کھانا نہیں ملتا بلکہ وہاں صبح ڈھلنے پر اسنیکس وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، بعد میں وہ گھر یا ڈے کیئر جا کر تاخیر سے ظہرانہ کھاتے ہیں۔ والدین بچوں کو مختلف ڈبوں میں ’پاؤزن بروٹ‘ یا ’وقفے کی روٹی‘ دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
یہ دن یادگار ہو گا
دنیا بھر ہی میں اسکول کے پہلے دن کے موقع پر بچوں کی تصاویر لی جاتی ہیں۔ جرمنی میں روایت یہ ہے کہ یہ تصویر بچے کے ساتھ ’شول ٹوئٹے‘ یا ’تحائف والی کون‘ کو کھولنے سے قبل کی لی جاتی ہے۔ اس کون پر لکھا ہوتا ہے، ’میرا اسکول کا پہلا دن‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعا کے ساتھ رخصت
جرمنی میں اسکول کے پہلے دن پڑھانا شروع نہیں کر دیا جاتا، بلکہ والدین، رشتہ دار، نانی نانا اور دادی دادا سبھی کو اسکول آنے کی دعوت دی جاتی ہے، جہاں بچوں کو خصوصی دعاؤں کے ساتھ تعلیم کے اس طویل سفر پر روانہ کیا جاتا ہے۔ بعض اسکول میں اس موقع پر کثیرالمذہبی دعائیہ تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کاروں سے پوچھ لیں
اسکول کے پہلے دن کی تقریب میں بڑے بچے اور اساتذہ مختلف پرفارمنسز اور دیگر وضاحتوں کے ساتھ نئے آنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ اسکول میں کیا کچھ کرنا ہے۔ بعض اسکولوں میں پہلی جماعت کے بچوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ تیسری یا چوتھی جماعت والے کسی بچے کو دوست بنائیں اور وہ بڑا بچہ پھر اپنے چھوٹے ساتھی کے ساتھ اپنا تجربہ بانٹتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسے اپنا گھر ہی سمجھیے
اسکول کے پہلے دن ان بچوں کو ان کی جماعت کا کمرہ دکھایا جاتا ہے اور نئے جماعتوں کے باہر نئے بچوں کے لیے خوش آمدیدی کلمات لکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
اسکول کا دوسرا دن
اب جشن ختم ہو چکا ہے، کیک کھایا جا چکا ہے، تحائف کی کون کھل چکی ہے، پہلا دن گزر چکا ہے۔ دوسرے دن بچے اسکول پہنچتے ہیں، تو ان کے سامنے پہلا سبق منتظر ہوتا ہے۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی جماعت تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد بچے سیکنڈری اسکول کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ وہ کس اسکول میں جائیں گے؟ اس کا دارومدار ان کی تعلیمی قابلیت پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
9 تصاویر1 | 9
ایسے صرف 15 فیصد بچے ہی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر پاتے ہیں، جن کے والدین اسکول کی سطح پر تعلیم مکمل نہ کر پائے ہوں۔ یہ او ای سی ڈی کے اکیس فیصد کے معیار سے کم ہے۔ جرمنی میں چار میں سے صرف ایک ہی طالب علم اپنے والدین سے زیادہ اعلٰی تعلیم حاصل کر پاتا ہے اور یہ بھی او ای سی ڈی کے41 فیصد کے معیار سے کم ہے۔ جنوبی کوریا میں 57 فیصد بچے تعلیم کے میدان میں اپنے والدین سے آگے نکل جاتے ہیں اس کے بعد فن لینڈ 55 کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
اس جائزے کے مطابق سماجی اور اقتصادی طور پر کمزور گھرانوں کے تقریباً 46 فیصد بچے اسکولوں میں اپنے جیسے خاندانی پس منظر والے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔