1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکولوں کی کم عمر طالبات کے ہیڈ اسکارف پر پابندی کا مطالبہ

8 مارچ 2020

چانسلر میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور اس پارٹی کی ہم خیال جماعت کرسچین سوشل یونین کے متعدد رہنماؤں نے جرمنی میں تمام صوبائی حکومتوں سے اسکولوں کی کم عمر طالبات کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

انگیلا میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کے داخلی سیاسی امور کے ماہر کرسٹوف دے فرائیز نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں تعلیمی شعبہ صوبائی حکومتوں کی عمل داری میں آتا ہے اور اب ضرورت ہے کہ تمام سولہ وفاقی صوبوں کی حکومتیں اس معاملے میں زیادہ فعال ہو جائیں۔

کرسٹوف دے فرائیز نے کہا، ''میری رائے میں چودہ برس سے کم عمر کی بچیوں کے اپنے تعلیمی اداروں میں ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا دینا ہی وہ اہم قدم ہو گا، جس کی مدد سے ان کے لیے خود ارادیت اور آزادانہ طور پر صنفی مساوات کے ماحول کو عملاﹰ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

اسی طرح جنوبی جرمن صوبے باویریا میں حکمران جماعت اور انگیلا میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی ہم خیال قدامت پسند پارٹی کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے نائب سربراہ اور سابق صوبائی وزیر انصاف ونفرید باؤزباک نے بھی کہا ہے کہ اس حوالے سے ریاستی اداروں کو موجودہ رجحان کے خلاف طرز عمل اپنانا ہو گا۔

ذیلی 'متوازی معاشرے‘

ونفریڈ بوزباک نے کہا، ''اہم ترین ترجیح بچیوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس رجحان کی مخالفت کریں، جس کے تحت والدین کے اپنے بچوں کی مذہبی تربیت کے بنیادی حق کے غلط افہام کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں جرمنی میں ذیلی 'متوازی معاشرے‘ قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

اسی طرح شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ میں سی ڈی یو کے خواتین کے شعبے کی صوبائی سربراہ فرانسسکا ہوپرمان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر مسلمان بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی 'ہیڈ اسکارف پہننے پر مجبور کر دینا ان کے والدین کی طرف سے مذہب کے نام پر جبر کی علامت ہے‘۔

قانونی پابندی جائز؟

ہوپرمان نے 14 سال سے کم عمر کی بچیوں کے لیے اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا دینے کے اپنے مطالبے کے حق میں یہ دلیل بھی پیش کی کہ ابھی حال ہی میں ریاستی قوانین اور ان کی تشریح کے ایک معروف جرمن ماہر کی طرف سے پیش کردہ سفارشات میں ایسی کسی ممکنہ پابندی کے قانوناﹰ جائز ہونے کی بات کی گئی ہے۔

ان سفارشات کے لیے درخواست جرمنی میں تارکین وطن کی نمائندہ تنظیموں کے وفاقی ورکنگ گروپ نے کی تھی۔ شہر وُرسبرگ میں ریاستی قوانین اور ان کی تشریح کے معروف ماہر کِیرِل آلیکسانڈر شوارس نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ جرمن اسکولوں سمیت تمام عوامی تنظیموں اور پبلک اداروں میں چودہ برس سے کم عمر کی بچیوں کے سروں پر اسکارف پہننے پر لگائی جانے والے کوئی بھی حکومتی پابندی ممکنہ طور پر نہ تو آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی ہو گی اور نہ ہی اس طرح کسی بھی مذہبی اقلیت یا اکثریت کے اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کر سکنے کے بنیادی حق کی نفی ہو گی۔

جرمنی میں آباد کئی ملین مسلمان، مسیحی عقیدے کی حامل آبادی کے بعد دوسری سب سے بڑی مذہبی برادری ہیں اور ہیڈ اسکارف پہننے یا حجاب استعمال کرنے کا رجحان بھی زیادہ تر مسلمان خواتین اور بچیوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ جرمن اسکولوں میں زیر تعلیم ساری ہی مسلمان طالبات ہیڈ اسکارف پہنتی ہوں۔

م م / ش ح  (ڈی پی اے، ای پی ڈی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں