جرمن افواج کی افغان جنگ میں شرکت، سیاسی حلقوں میں تشویش
22 جولائی 2009جرمن اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدانوں کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کے حوالے سے موقف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
افغانستان متعین بین الاقوامی حفاظتی دستوں میں شامل جرمن فوج اس وقت شمالی علاقوں میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے شمالی افغانستان میں طالبان کے خلاف جاری آپریشن میں جرمن فوج بھی شامل ہے۔ اب تک جرمن فوج طالبان کے براہ راست حملوں سے دفاع کی ذمہ داریاں انجام دیتی رہی، تاہم اب جرمن دستے طالبان عسکریت پسندوں کو خود اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس آپریشن میں مارٹر گولوں اور ٹینکوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر دفاع Franz Josef Jung اس کا جواز قندوز کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور وہاں پر طالبان باغیوں کی روز افزوں پرتشدد کارروائیاں بتاتے ہیں۔ چند روز سے جرمن میڈیا میں اس بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
آج وفاقی جرمن فوج کے سربراہ Wolfgang Schneiderhahn نے برلن میں وفاقی وزیر دفاع Franz Josef Jung کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اس آپریشن میں تین سو جرمن اور آٹھ سو افغان فوجیوں سمیت، ایک سو کے قریب افغان پولیس اہلکار بھی پہلی بار توپوں اور ٹینکوں کا استعمال کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا اس نوعیت کے بھاری توپ خانے کا پہلی بار استعمال افغانستان میں جرمن فوج کی نئی عسکری حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے؟ جرمن چیف آف اسٹاف Schneiderhahn کا کہنا تھا: ’’جرمن فوج کو کوئی نئے احکامات جاری نہیں کئے گئے ہیں، بلکہ شمالی افغانستان کی صورتحال نئی شکل اختیار کر گئی ہے۔‘‘
کرسچئن ڈیموکریٹ سیاستدان اور جرمن وزیر دفاع Franz Josef Jung نے کہا ہے کہ قندوز میں طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے جس کے سبب جرمن فوج کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جرمنی چاہتا ہے کہ اگست میں افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر امن اور باضابطہ طریقے سے منعقد ہو سکیں۔ جرمن فوج کے سربراہ کے بقول یہ وقت شمالی افغانستان میں طالبان کا زور ختم کرنے کے لئے موزوں ترین ہے۔
جرمن وزیر دفاع کے مطابق افغانستان متعینہ جرمن فوج کا اصل مقصد وہاں کی مقامی فوج اور سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں کی تربیت کرنا ہے تاکہ یہ ملک خود اپنا دفاع کر سکے: ’’ اس وقت جب میں قندوز میں جاری آپریشن کی نوعیت اور اس کے اثرات پر نگاہ ڈالتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ افغانستان کے سلامتی امور کے اہلکار جس طرح حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، تومیں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال سے یہ سب کچھ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘
Schneiderhahn نے کہا کہ افغانستان میں ان کے فوجیوں کو یہ فوجی ساز وسامان اور اسلحہ جات پہلے سے ہی میسر تھے تاہم ان کا استعمال کب اور کیسے کیا جائے گا، یہ فیصلہ افغانستان متعین فوجی قیادت کا ہے۔ فی الحال اس آپریشن کے ایک ہفتہ جاری رہنے کی امید کی جا رہی ہے۔ جرمن وزیر دفاع Jung کے مطابق اس آپریشن کا دائرہ قندوز کے ارد گرد تیس کلومیٹر تک محدود ہو گا۔
جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کے دفاعی امور کے ماہر Winfried Nachtwei نے قندوز میں تشدد کی ایک نئی لہر کے خلاف انتباہ کیا ہے۔ ادھر بائیں بازو کی پارٹی ’دی لنکے‘ کے سربراہ Oskar Lafontaine نے وفاقی جرمن حکومت سے افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے کا پر زور مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمن فوج افغانستان میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک خوفناک جنگ میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔ Lafontaine کے مطابق افغانستان کی جنگ میں جرمن فوجیوں کی شمولیت جرمنی کے اندر دہشت گردی کے خطرات میں اضافے کا باعث ہے۔
کشور مصطفٰی
ادارت: مقبول ملک