جرمن الیکشن سے قبل میرکل کی پارٹی کی مقبولیت میں کمی، جائزہ
مقبول ملک روئٹرز
15 ستمبر 2017
اتوار چوبیس ستمبر کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل جرمن چانسلر میرکل کی جماعت کی عوامی مقبولیت میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک تہائی سے زائد جرمن ووٹروں نے تاحال یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آج جمعہ پندرہ ستمبر کو سامنے آنے والے ایک تازہ عوامی جائزے کے نتائج کے مطابق نو روز بعد یورپی یونین کی اس سب سے زیادہ آبادی والی رکن ریاست میں وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے جو انتخابات ہوں گے، ان میں انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے اپنی سب سے بڑی حریف جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے کافی آگے رہنے کا امکان تو اب بھی ہے لیکن گزشتہ چند روز میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی عوامی مقبولیت میں دو سے تین فیصد تک کی کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
اس کے علاوہ قریب 82 ملین کی آبادی والے جرمنی میں ووٹ دینے کے اہل شہریوں کی مجموعی تعداد میں سے قریب ایک تہائی رائے دہندگان نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ اس الیکشن میں کس پارٹی کی حمایت کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے چند روز میں عوامی تائید کا یہی تناسب مزید بدل بھی سکتا ہے۔ جرمن پبلک براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف کی طرف سے کرائے گئے تازہ ترین ہفتہ وار عوامی جائزے کے مطابق کچھ عرصہ پہلے تک سی ڈی یو کو 38 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل تھی، جو اب کم ہو کر قریب 36 فیصد رہ گئی ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بھی میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال باویریا کی سیاسی جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے ارکان ہی بنڈس ٹاگ میں سب سے بڑا پارلیمانی دھڑا ہوں گے لیکن حکومت سازی کے لیے کرسچین ڈیموکریٹس کو بہرحال کسی نہ کسی دوسری سیاسی جماعت یا جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی۔
جائزے کے نتائج کے مطابق چانسلر کے عہدے کے لیے میرکل کے اہم ترین حریف امیدوار مارٹن شُلس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایک فیصد کا اضافہ بھی ہوا، جس کے بعد اس وقت اس پارٹی کو حاصل ووٹروں کی حمایت اب 23 فیصد ہو گئی ہے۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
اسی جائزے کے دیگر نتائج کے مطابق تارکین وطن کی آمد کی مخالفت اور یورپی مشترکہ کرنسی یورو پر تنقید کرنے والی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو ممکنہ طور پر 10 فیصد ووٹ ملیں گے۔ اسی طرح ترقی پسندوں کی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی یا ایف ڈی پی بھی 10 فیصد ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔
جہاں تک دیگر جماعتوں کا تعلق ہے تو بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کو تازہ ترین رجحانات کے مطابق قریب نو فیصد ووٹ ملیں گے جبکہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ماحول پسندوں کی گرین پارٹی بھی آٹھ فیصد عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے مطابق اس تازہ ترین نمائندہ سروے کے لیے 12 اور 14 ستمبر کے درمیان کُل 1383 جرمن ووٹروں سے ان کی رائے معلوم کی گئی۔ ان میں سے 39 فیصد نے کہا کہ وہ ابھی تک اس بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں کہ الیکشن کے دن وہ کس پارٹی کی حمایت کریں گے۔
انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ بھی چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار