جرمن الیکشن، شٹائن بروک زیر عتاب
14 ستمبر 2013جرمنی ایک ایسا ملک ہے، جہاں درمیانی انگلی یا ’مڈل فنگر‘ دکھانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس ’بیہودہ‘ اشارے کی وجہ سے کسی کار ڈرائیور کو چار ہزار یورو تک کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی ’نازیبا‘ اشارے کی وجہ سے معروف جرمن فٹ بال کھلاڑی اشٹیفان افنبرگ کا بین الاقوامی کیریئر ختم ہو گیا تھا۔ اب اپوزیشن سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک یونین کی طرف سے چانسلر شپ کے امیدوار کی ایک ایسی ہی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد کئی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا 66 سالہ یہ سیاستدان جرمنی کے چانسلر بننے کے لائق ہیں۔
جرمن الیکشن سے نو روز قبل جمعہ 13 ستمبر کو Sueddeutsche Zeitung نامی میگزین کی ’کور فوٹو‘ میں پیئر شٹائن بروک اپنے بائیں ہاتھ کی مڈل فنگر دکھا رہے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی اس تصویر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشارہ صرف ایک مذاق تھا۔ شٹائن بروک کے بقول اس فوٹو سیشن میں انہوں نے مختلف سوالوں کے جواب بولے بغیر صرف اشاروں سے دینے تھے۔
اس تصویر کی اشاعت پر سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد شٹائن بروک نے کہا، ’’آپ سے سوال پوچھا جائے اور آپ نے اس کا جواب صرف اشاروں یا تاثرات سے دینا ہے تو آپ ایکٹ کرتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ملک کے عوام میں اتنی حس مزاح موجود ہے کہ وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس اشارے کا کیا سیاق وسباق ہے۔‘‘ شٹائن بروک کا اصرار ہے کہ ان کی اس تصویر کو صرف مذاق سمجھا جائے۔
شٹائن بروک کے حمایتی
انتخابات سے قبل ہونے والے تازہ ترین پول جائزوں کے مطابق شٹائن بروک کی عوامی مقبولیت میں کچھ اضافہ ہوا ہے تاہم وہ اب بھی جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے کافی پیچھے ہیں۔ الیکشن مہم کے اس نازک مرحلے پر جنم لینے والے اس نئے تنازعے پر سبھی حلقوں نے ہی ناراضی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ عوامی سروے کرانے والے ایک ادارے Infratest-Dimap سے منسلک رچرڈ ہیلمے کے بقول شٹائن بروک کی یہ حرکت بالخصوص نوجوان ووٹروں کو متوجہ کر سکتی ہے۔
ڈریسڈن ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات ویرنر پاٹزلٹ اعتراف کرتے ہیں کہ ایس پی ڈی کے امیدوار کی انتخابی مہم متعدد غلطیوں سے عبارت ہے تاہم انہوں نے کہا، ’’میری خواہش کہ جرمن عوام اس طرح کی چیزوں کے بارے میں پُرسکون رویہ اختیار کریں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’شٹائن بروک نے کسی کو یہ انگلی نہیں دکھائی ہے۔ شٹائن بروک اور افنبرگ میں بہت زیادہ فرق ہے۔‘‘ جرمن اسٹار فٹ بالر اشٹیفان افنبرگ کو 1994ء میں اس وقت قومی ٹیم سے نکال دیا گیا تھا، جب انہوں نے ایک فٹ بال میچ کے دوران مخالف ٹیم کے شائقین کو ’مڈل فنگر‘ دکھائی تھی۔
قدامت پسند چانسلر میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے سیاسی اتحاد میں شامل فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما کرسٹیان لنڈنر نے شٹائن بروک کے اس متنازعہ ’فوٹو شوٹ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ کسی ایسے شخص کو ملک کا کنٹرول نہیں دینا چاہیے، جو اپنے جذبات اور تاثرات پر کنٹرول نہ رکھتا ہو۔‘‘ دوسری طرف سی ڈی یو کے سیاستدان Wolfgang Bosbach نے کہا ہے، ’’جو الیکشن سے قبل ایسی حرکت کرتا ہے، وہ کامیابی کا خواہشمند نہیں ہوتا۔‘‘
این۔ ٹی وی نیوز کی طرف سے ٹیلی فون پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق 67 فیصد عوام کا خیال ہے کہ شٹائن بروک اس اشارے کے مرتکب ہوتے ہوئے اور مروجہ اخلاقی اقدار سے کافی دور نکل گئے۔ جب کہ شپیگل پر ایک آن لائن سروے میں حصہ لینے والے سترہ ہزار افراد میں سے نصف نے شٹائن بروک کی ہمت اور حوصلے کی داد دی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شٹان بروک نے اپنے میڈیا مشیر کے اعتراضات کے باوجود ان تصاویر کو شائع کرنے کی اجازت دی تھی۔