جرمن الیکشن کے بعد نئی حکومت کے لیے چیلنجز
24 ستمبر 2013انتخابی مہم کے دوران میرکل حکومت نے کئی ایک اہم معاملات پر حتمی فیصلوں کو کچھ دیر کے لیے مؤخر کر دیا تھا۔ اب نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ان کو کئی ملتوی شدہ اہم چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ان میں سب سے اہم یورو بحران خیال کیا جاتا ہے۔ انتخابی نتائج اور حکومت سازی کے عمل کے دوران یہ بحران جرمن سیاسی منظر پر سر اٹھا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک جرمن خارجہ پالیسی کو یورو بحران کی صورت میں ایک بہت ہی اہم چیلنج کا سامنا ہے۔ یونان کی اقتصادی مشکلات میں کمی نہیں آئی اورمیرکل کے وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے ایک اور مالیاتی پیکج کا اشارہ کر چکے ہیں۔
کئی دوسری یورپی یونین کی ریاستوں کے مقابلے میں جرمن معیشت کی صورت حال بہتر اور ٹیکس کی مد میں حکومتی خزانے کو خاصی رقم بھی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود جرمن قرضے کا حجم 2.1 ٹریلن کے لگ بھگ ہے۔ جرمن حکومتی اخراجات ٹیکس رقوم سے زیادہ ہیں۔ اس وسیح حجم میں کمی لانا نئی حکومت کا امکاناً سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایس پی ڈی اور گرینز نے ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ میرکل کی سیاسی جماعت ٹیکس کی شرح بڑھانے کی مخالف ہے۔ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن کی جماعتوں میں اخراجات کے حوالے سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں اور اگر گرینڈ آلائنس بنتا ہے تو پھر کئی مالی معاملات پر حکومت اور اپوزیشن سینگ پھنسا سکتی ہیں۔
نئی حکومت کو مساوات اور توانائی کے چیلنج کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن جرمنی میں اس مناسبت سے صورت حال بہت بہتر دکھائی نہیں دیتی۔ ایک تعلیم یافتہ اور مالی اعتبار سے آسودہ والدین کے بچوں کو بمقابلہ کم تعلیم یافتہ اور مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے والدین کے بچوں کے مقابلے میں تعلیم حاصل کرنے کے بہتر مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ اس مناسبت سے انتخابی مہم کے دوران پیئر اشٹائن بروک نے اس پہلو کو خاصا وزن دیے رکھا تھا۔ اسی طرح جرمن ہیلتھ سسٹم بھی تنقید کی زد میں ہے۔ پرائیویٹ انشورنس کے حامل افراد کو پبلک انشورنس رکھنے والوں کے مقابلے میں ڈاکٹرز اور ہسپتال ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح جرمنی کو توانائی کے سیکٹر میں خاصی توجہ کی ضرورت ہے۔ جرمنی نے جوہری توانائی مراکز کو مرحلہ وار بند کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد متبادل توانائی کو اہمیت دے رکھی ہے۔ اس وقت جرمنی میں شمسی توانائی، ہوائی چکیوں اور بائیو گیس سے 23 فیصد بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ جرمنی سن 2015 تک اس حد کو 35 فیصد تک لے جانے کی تمنا رکھتا ہے۔ اس منابست سے لائنوں کی تنصیب اہم ہے اور مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ کئی علاقوں تک بجلی کی سپلائی اور ترسیل میں اسی باعث رکاوٹیں پیدا ہیں۔ اس کے علاوہ ماحول دوست اور متبادل توانائی خاصی مہنگی ہے اور حکومت کی یہ تمنا حقیقت میں صارفین پر مالی بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر شام کا بحران انتہائی اہم خیال کیا جا رہا ہے۔ شام کا بحران جرمن حکومتی ایجنڈے میں شامل ہے۔ جرمنی کی جانب سے پانچ ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ ان مہاجرین کو کس علاقے میں رکھنا ہے، اس پر گفتگو جاری ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کو آزادانہ طور پر روزگار حاصل کرنے کی ممانعت ہے اور پہلے سے آباد مہاجرین اس مناسبت سے صدائے احتجاج وقتاً فوقتاً بلند کرتے رہتے ہیں۔ یہ مہاجرین بھی حکومتی خزانے پر بوجھ خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کو ایک طے شدہ خرچہ دیا جاتا ہے جو مہاجرین کے مطابق بہت ہی قلیل ہے۔