1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن امیگریشن سینٹر: ہجرت کی رنگ برنگی کہانیاں

11 جولائی 2021

جرمن بندرگاہی شہر بریمر ہافن میں قائم ایک عجائب گھر مہاجرت سے متعلق دلچسپ کہانیاں لیے لاتعداد شائقین کی دلچسپی کا مرکز ہے۔

Auswanderer-Figuren aus verschiedenen Jahrzehnten
تصویر: Stefan Volk/Deutsches Auswandererhaus

 

یوہانا 1853ء میں امریکا چلی گئی تھی۔ احمد 2015ء میں شام سے فرار ہو کر جرمنی پہنچا ہے۔ بس یہ دو کہانیاں ہی جرمنی کے اس امیگریشن سینٹر نامی عجائب گھر کا دورہ کرنے والے زیادہ تر شائقین کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب بنتی ہیں۔

نئی دنیا کی تسخیر

انسانی فطرت کے عین مطابق ''خوشگوار زندگی کی تلاش‘‘ صدیوں سے لاتعداد انسانوں کو اپنا وطن ترک کر کے کسی دوسرے ملک کا رُخ کرنے پر مجبور کرتی آئی ہے۔ جرمن امیگریشن سینٹر نامی یہ میوزیم، 2005ء سے شمالی جرمن شہر بریمر ہافن میں مہاجرت سے متعلق دلچسپ کہانیاں لیے شائقین کے لیے اپنے دروازے کھولے ہوئے ہے۔

جرمنی سے ملک بدری: کیا پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟

انیس اور بیسویں صدی میں نیو یارک میں تارکین وطن خواتین درزی کی دکان میں کس ماحول میں کام کرتی تھیںتصویر: Deutsches Auswandererhaus

یہ عجائب گھر بنیادی طور پر تارکین وطن سے متعلق ہے۔ اس تاریخی شہر میں قائم کیے گئے اس عجائب گھر کی ڈائریکٹر معروف جرمن مورخ زیمون بلاشکے ہیں۔ وہ ترک وطن اور مہاجرت کے امور کی محقق بھی ہیں۔ متعدد کتابوں کی مصنفہ بلاشکے کی پیدائش اور پرورش بریمر ہافن میں ہی ہوئی تاہم انہوں نے امریکا اور کینیڈا میں ترک وطن اور مہاجرت کے موضوع پر ایک طویل عرصے تک ریسرچ کی ہے۔

 ان کی کتاب '' ایک نئی دنیا میں: جرمن تارکین وطن کی تین صدیاں‘‘بہت مقبول ہوئی۔ اس میوزیم کے بارے میں ڈائریکٹر بلاشکے کہتی ہیں،'' 2005 ء میں جب اس میوزیم کے دروازے شائقین کے لیے کھول دیے گئے تھے تب سے یہاں کا مرکزی موضوع '' ترک وطن‘‘ ہی تھا۔

تارکین وطن کے پس منظر والے: یہ اصطلاح استعمال نا کی جائے

اس میوزیم میں جزیرے ایلس کی جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تصویر: Deutsches Auswandererhaus

انہوں نے بتایا کہ 1830ء سے لے کر 1974ء کے درمیان بریمر ہافن کی تاریخی بندرگاہ سے بہتر لاکھ انسان بحری جہازوں پر سوار ہو کر بیرون ملک کسی بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے۔

زیمون کہتی ہیں،'' انیسویں صدی میں جرمنی کی آبادی میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں روزگار کی منڈی پر جو بوجھ پڑا تھا، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں لوگوں کو اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا تھا چنانچہ انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔‘‘ زیمون بتاتی ہیں کہ بحری جہاز کے سفر کے اخراجات ایک کاریگر کی سالانہ تنخواہ کے برابر تھے،'' اس سفر کے متحمل ہونے کے لیے ایک کنبے کو اپنا تمام مال و متاع بیچنا پڑتا تھا۔ ایک غیر یقینی مستقبل کے لیے دیار غیر کی طرف رُخ کرنا، بہت بڑا قدم تھا تب بھی انسان اتنے بڑے خطرات مول لینے کو تیار تھے۔‘‘    جرمنی، غیرقانونی مہاجرین کی ملک بدریوں میں شدید کمی

بریمرہافن کی قدیم بندرگاہتصویر: picture alliance/dpa/K. Nowottn

جرمنی میں خوش آمدید

میوزیم میں موجود نمائشی اشیاء محض جرمنی اور مشرقی یورپ سے نقل مکانی کرنے والوں کی کہانیاں نہیں سناتی ہیں بلکہ یہ 300 سال پر محیط جرمنی آنے والے تارکین وطن کا بھی پتا دیتی ہیں۔ اس کے لیے ' ویلکم ان جرمنی یا جرمنی میں خوش آمدید‘ کے موٹو کے تحت اس میوزیم کے ایک حصے میں علیحدہ نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 17 ویں صدی میں فرانس میں ظلم وستم کا نشانہ بننے والے اقلیتی گروپ 'ہوگونوٹس‘ کا معاملہ ہو یا ترکی، یونان اور اٹلی سے آئے ہوئے مہمان کارکنوں کا، جنہیں 1960ء کی دہائی میں نوخیز جرمن جمہوریہ نے اپنے ہاں بلایا تھا، ان سب کی کہانیاں اس میوزیم میں موجود ہیں۔ اس عجائب گھر میں آپ کو دیر سے گھر لوٹنے والے روسی باشندوں، سابق یوگوسلاویا کے مہاجرین اور آمرانہ دور کے مظالم سے تنگ آکر پناہ کی تلاش میں چلی سے جی ڈی آر یا سابق مشرقی جرمنی آنے والے پناہ گزینوں تک کی کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملیں گے۔

جرمن ریاست "خطرناک علاقوں" کی فہرست شائع کرنے پر مجبور

جرمنی کے اس عجائب گھر میں شامی مہاجرین کی تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہےتصویر: Sammlung Deutsches Auswandererhaus

حالیہ سالوں میں شام، افغانستان اور بہت سارے افریقی ممالک کے پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد نے جرمنی کا رُخ کیا اور اب وہ یہاں قیام کے اجازت نامے کے منتظر ہیں۔  پناہ کے متلاشی ان لاکھوں افراد کا مستقبل جرمنی میں ایک مرکزی موضوع کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے۔ کئی سالوں سے  ہجرت اور سیاسی پناہ کے امور جرمنی میں سماجی اور معاشرتی تنازعات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

  سوزانے کورڈس (ک م/ا ب ا)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں