جرمن انتخابات:دھمکی کے بعد شامی پناہ گزین نے قدم ہٹالیے
31 مارچ 2021
طارق علاوس نے جرمن پارلیمان کے لیے انتخاب میں مقابلہ کرنے کا گزشتہ ماہ اعلان کرکے سنسنی پیدا کردی تھی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ نسل پرستی اور دھمکیوں کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے پر نظر ثانی کرنی پڑی ہے۔
اشتہار
طارق علاوس کہتے ہیں کہ ان کی امیدواری کے اعلان سے پناہ گزینوں کے مسائل تو اجاگر ہوئے ہیں لیکن منظر عام پر آجانے کی وجہ سے ان (طارق) کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔
دمشق میں پیدا ہونے والے شامی پناہ گزین اور انسانی حقوق کے کارکن اکتیس سالہ طارق علاوس نے منگل کے روز اعلان کیا کہ نسلی حملوں اور انہیں موصول ہونے والی ذاتی دھمکیوں کی وجہ سے انہیں جرمن پارلیمان، بنڈس ٹاگ کے الیکشن میں امیدواری سے اپنا نام واپس لینا پڑ رہا ہے۔ جرمن انتخابات میں ان کی امیدواری کو تاریخی قرار دیا جا رہا تھا۔
طارق شام میں جاری جبراً فوجی بھرتی سے بچنے کے لیے فرار ہوکر چھ برس قبل یورپ آئے تھے۔ انہوں نے نارتھ رائن ویسٹ فالیا صوبے میں اپنے ضلع اوبر ہاؤزین سے گرین پارٹی کے امیدوار کے طورپر الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
فروری میں جب انہوں نے یہ اعلان کیا تو جرمن پارلیمان میں ایک پناہ گزین کے داخلے کے امکان کوبہت سے لوگوں نے امید افزا قرار دیا تھا لیکن اس اعلان سے ہر ایک خوش نہیں تھا۔
طارق نے اپنی امیدواری کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے لڑنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ جلد ہی سوشل میڈیا پر حملوں کی زد میں آگئے۔ سوشل میڈیا پر ان پر حملہ کرنے والے بہت سے لوگوں نے انہیں کہا کہ اگر انہیں پناہ گزینوں کے حالات بدلنے میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو وہ پناہ گزینوں اور نسلی افراد کے ساتھ جرمنی کے سلوک کے بارے میں بات کرنے کے بجائے واپس شام لوٹ جائیں اور وہاں جا کر اپنا کام کریں۔
برلن میں نئی زندگی: شامی موسیقار ’عصیل‘
02:36
سخت نکتہ چینی کا شکار
طارق نے جرمنی کی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ جرمن پارلیمان کے انتخاب سے اپنی امیدواری واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا”میری امیدواری کے اعلان سے عوام نے جس طرح وسیع پیمانے پر دلچسپی کا مظاہرہ کیا اس سے پتہ چلتا ہے ہم پناہ گزین کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا سماج زندگی کے بہت سے شعبوں میں جانبداری سے پاک نہیں ہے۔ یہ اب ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم اپنے اطراف کی صورت حال اور انہیں تبدیل کرنے کے لیے کتنا سرگرم کردار ادا کرتے ہیں۔“
انہوں نے کہا”اپنی امیدواری واپس لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف مجھے سنگین خطرات لاحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ میرے ہم نواوں کے لیے بھی خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔“
طارق کو سخت گیر دائیں بازوں کی تنظیموں کی طرف سے جان سے مارنے کی کئی دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے وسیع پیمانے پر پائی جانے والی نسل پرستی کو دیکھ کر انہیں بہت صدمہ پہنچا ہے۔
طارق علاوس نے اپنی امیدواری واپس لینے کے ساتھ ہی گرین پارٹی سے اپنی رکنیت بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ج ا / ص ز (اے پی، ڈی پی اے)
شامی مہاجرین کا ترکی میں نئی زندگی کا آغاز
ترکی کے شہر ازمیر میں امدادی گروپوں اور رضاکارانہ طور پر سرگرم کارکنوں کی مدد سے شامی مہاجرین نے اپنا کاروبارِ زندگی نئے سرے سے شروع کیا ہے۔ ترکی کا یہ بندرگاہی شہر شام کے پچاسی ہزار مہاجرین کا مسکن ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شامی مہاجرین کی بڑھتی کاروباری سرگرمیاں
ازمیر کا علاقہ بسمانے، انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور یہاں مہاجرین کی ملکیت اسٹورز اور ریستوران کی تعداد شامی مہاجرین کے آنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر کاروبار اپنے ترک دوستوں کے نام پر کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بے روزگار اور بے یار و مددگار
مہاجرین کے لیے بلوں کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ تر بے روزگار افراد کیفے میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک جرمن لڑکی لیا ولمسن ان افراد کو مفت یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود جگہ اور مسائل
لیا ولمسن کو اس کام میں ایک مترجم بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ولمسن بسمانے میں مہاجرین کے گھروں میں جاتی ہے۔ اس تصویر میں وہ دو خواتین سے بات کر رہی ہے ، جن کے بچے نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہے۔ ولمسن کے بقول چھوٹے سے کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمروں میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بچے اور روزگار
اس علاقے میں لائف جیکٹس عام دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں اور بچے بھی یہیں کھیلتے ہیں۔ ازمیر میں موجود مہاجر بچے باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتے بلکہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرایہ اور بلوں کی ادائیگیوں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مہاجر کیمپوں کا قیام
ییلسن یانک یونین کے سابقہ ملازم ہیں۔ وہ آج کل ایک ایسی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام کر رہے ہیں، جسے مکمل ہونے کے بعد مہاجرین کا ایک مرکز بنا دیا جائے گا۔ ییلسن یانک کے بقول’’ مجھے مہاجرین کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
خود انحصاری
اطالوی نژاد ایک برطانوی رضاکار کرس ڈولنگ بھی ییلسن یانک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔’’ ہم نہیں چاہتے لوگ صرف امداد پر ہی انحصار کریں۔ ہم انہیں معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جگہ کی کمی
یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والی امدادی تنظیم ’میرسی کورپس‘ نے ازمیر میں اپنا ایک دفتر کھولا ہے۔ یہاں پر مستحق مہاجر خاندانوں میں پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم بہت کم کرائے پر گھر بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسمگلروں کا اڈہ
امدادی کارکنوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود زیادہ تر مہاجرین ازمیر انسانی اسمگلروں کی تلاش میں آتے ہیں۔ انتظامیہ اسمگلروں اور شہریوں کے مابین رابطوں کو روک نہیں پا رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محفوظ راستہ
یہ یونانی جزیرہ کی اوس کی تصویر ہے۔ ترک علاقے سیسما سے یہ یونانی ساحل زیادہ دور نہیں ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند مہاجرین زیادہ تر بحیرہ ایجیئن کو یہیں سے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔