جرمنی میں اتوار 24 ستمبر کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے آخری روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ان کے حریف مارٹن شُلس اپنے آبائی علاقوں میں پہنچ کر عوام سے ووٹوں کی اپیل کر رہے ہیں۔
اشتہار
اپنی اپنی انتخابی مہم کے اختتامی لمحات میں جرمنی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ مہاجرین مخالف اور عوامیت پسند جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ AfD کو پارلیمان میں لانا ملک و قوم کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین CDU کی سربراہ اور چانسلر انگیلا میرکل آج ہفتہ 23 ستمبر کو بحیرہ بالٹک کے قریب اپنے انتخابی حلقے میں اپنی مہم کا اختتام کریں گی تاہم اُن علاقوں میں نہیں جہاں ان کی جماعت کی پوزیشن مضبوط ہے بلکہ وہ گرائفس والڈ اور روئگن کے علاقوں کا دورہ بھی کریں گی جہاں مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت AfD نے گزشتہ برس ہونے والے ریاستی انتخابات میں میرکل کی جماعت کو شکست دی تھی۔
میرکل کے حیرف اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مارٹن شُلس آخن میں انتخابی ریلی سے خطاب کریں گے۔ آخن شُلس کے آبائی شہر ووئرزیلین کے قریب واقع ہے۔
میرکل کی جماعت CDU کو اپنی قریب ترین حلیف جماعت SPD پر دو عددی برتری حاصل ہے تاہم تازہ ترین انتخابی جائزوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت AfD کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ 11 سے 13 فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہو گا کہ اس جماعت کے قریب 60 اراکین ملک کی وفاقی پارلیمان میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جرمن پارلیمنٹ میں کُل نشستوں کی تعداد 630 ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ کوئی انتہائی دائیں بازو کی جماعت پارلیمان میں پہنچے گی۔ یہی وہ خوف ہے جس کے باعث ملک کی صف اول کی سیاسی جماعتوں نے جرمن ووٹروں کو خبردار کیا ہے کہ ایسا ہونا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
جمعہ 22 ستمبر کی شام میونخ میں خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے انتخابی جلسے میں ان کے خلاف نعرے لگانے والے اے ایف ڈی کے حمایتیوں کو کہا کہ ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اُن جماعتوں کو ووٹ دیں جو ملکی آئین کے ساتھ 100 فیصد وفادار ہیں۔
#فیصلہ جرمن عوام کا:انتخابی فہرست
01:50
دوسری طرف مارٹن شُلس نے گزشتہ روز دارالحکومت برلن میں انتخابی جلسے سے اپنے خطاب میں کہا کہ آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کوئی متبادل نہیں ہے بلکہ یہ جرمن عوام کے لیے شرم کا باعث ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD سے ہی تعلق رکھنے والے جرمنی کے وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کے مطابق AfD کی سربراہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو نفرت کو فروغ دیتے ہیں اور نازی پراپیگنڈا پھیلاتے ہیں۔ گابریئل کے مطابق، ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ اصل نازی جرمن پارلیمنٹ میں جا بیٹھیں گے۔‘‘
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔