جرمن انتخابات اور ایشیائی ممالک کی توقعات
11 ستمبر 2013ایشیائی حکومتیں اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جرمنی کی نو منتخب حکومت ایک وسیع اور نازک صورت حال کی شکار یورپی معیشت کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کرے گی۔
چانسلر انگیلا میرکل کی زیر قیادت چلنے والی جرمنی کی موجودہ حکومت کے دور میں برلن اور ایشیا کی بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات نہایت مضبوط ہوئے ہیں۔ چین، بھارت اور انڈونیشیا کے ساتھ ان خوشگوار تعلقات نے اقتصادی شعبے پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب کیے۔
بیجنگ کے ’چائنہ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ کے یورپی یونین سے متعلق امور کے ماہر زنگ ہووا کہتے ہیں، ’’(چینی) لوگوں کے خدشات صرف یہ ہیں کہ جرمنی جو کہ یورپی یونین کی معاشی قیادت بھی کرتا ہے، وہ وہاں جاری قرضہ بحران پر کس طرح قابو پائے گا۔‘‘ انہی خیالات کی گونج ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی سنائی دیتی ہے، جہاں ماہرین یہ خیال کرتے ہیں کہ 22 ستمبر کو ہونے والے جرمن انتخابات کے بعد جرمنی کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی آنی چاہیے۔
ایسے ہی ممالک میں تھائی لینڈ بھی شامل ہے، جو کہ جرمنی کو اپنی بہت سی زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ چولا لونگ کورن یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سورت ہراشکل اس حوالے کہتے ہیں، ’’کاروباری لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جرمنی کی اگلی حکومت یورو کی بہتری کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گی۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’یورو توجہ کا مرکز اس لیے ہے کہ اگر یورپی یونین کی دو بڑی معیشتیں فرانس اور جرمنی وہاں جاری کساد بازاری کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاتیں تو سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کا اعتماد اس خطے سے اٹھ جائےگا۔‘‘
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں ایک بلین سے زائد امیر صارفین موجود ہیں اور ان کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ملک کو میرکل حکومت کی ایشیا سے متعلق خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پیئر شٹائن بروک کی حکومت آنے کی صورت میں بھی جرمنی کی اس حوالے سے پالیسی کم و بیش ایسی ہی رہے گی۔ چین یورپی یونین اور امریکا کے بعد جرمنی کا تیسرا بڑا تجارتی ساتھی ہے۔
تاہم بیجنگ حکومت کو اصل خدشہ یہ ہے کہ جرمن انتخابات کے بعد برلن اور یورپ چینی مصنوعات کے اتنے بڑے درآمد کندگان رہ پائیں گے یا نہیں۔
چین میں خارجہ امور کے ایک ماہرچوئی ہونگ جیان کہتے ہیں، ’’چین اور جرمنی کے درمیان پہلے سے ہی ایک ایسا معاشی ڈھانچہ موجود ہے، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تعاون بدستور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں میرکل جیتیں یا شٹائن بروک کامیاب ہوں، دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
بھارتی مبصرین بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ جرمنی میں آئندہ کوئی بھی حکومت منتخب ہو، اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
اس صورت حال میں انڈونیشیا صرف ایک ایسا ملک ہے، جس کا معاملہ مختلف ہے۔ میرکل دور حکومت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ اس سال اب تک انڈونیشیا میں ریکارڈ معاشی نمو اور سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا ہے۔ یورپ میں جرمنی جکارتہ حکومت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ گذشتہ برس چانسلر میرکل اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا دورہ کر چکی ہیں اور رواں برس انڈونیشیائی صدر بمبانگ یدھو یونو بھی جرمنی آ چکے ہیں۔