جرمن انتخابات: سرکردہ سیاست دانوں کے درمیان آخری مباحثہ
21 فروری 2025
اتوار کے روز ہونے والے انتخابات میں سات اہم جماعتیں بنڈسٹاگ (جرمن پارلیمان) میں نشستوں کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر، تین دائیں طرف جھکاؤ والی اور چار بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ جرمن سیاست میں مختلف نظریات کی حامل یہ جماعتیں اور ان کے رہنما ووٹروں کو راغب کرنے کی آخری کوشش کررہے ہیں۔
جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ
رائے شماری کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق دائیں بازو کی اپوزیشن جماعتیں انتخابات میں برتری حاصل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ قدامت پسند جماعت سی ڈي یو کو تقریباً 30 فیصد حمایت حاصل ہے جب کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) تقریباً 20 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
موجودہ چانسلر اولاف شولس کی سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) 15 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جب کہ ان کی اتحادی جماعت گرین پارٹی صرف 13 فیصد ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر نظر آ رہی ہے۔
جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ
ووٹنگ سے قبل اہم جرمن سیاست دانوں کے درمیان "فائنل راونڈ" کے نام سے آخری مباحثہ گزشتہ رات ہوا۔ اسے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گیا۔ شرکاء نے یوکرین پر روس کے حملے، نیٹو نیز یوکرین اور نیٹو اتحاد کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے اور صحت کی دیکھ بھال کی پالیسی جیسے مسائل پر بھی بات کی۔
فریقین نے موسمیاتی بحران اور ملک کو توانائی کی پالیسی پر بھی اپنی رائے دی۔
رہنماؤں نے دفاع اور یوکرین پر کیا کہا؟
جرمنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کے درمیان دفاعی شعبے میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے دباؤ میں ہے۔ ٹرمپ نیٹو کے یورپی اراکین پر دفاع پر زیادہ خرچ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم، جرمن حکومت کی آئینی طور پر نئے قرضے لینے کی صلاحیت محدود ہے۔
جرمنی کو ایک نئے کاروباری ماڈل کی ضرورت کیوں؟
انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی چانسلر کی امیدوار ایلس وائیڈل نے قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے چانسلر کے امیدوار فریڈرش میرس پر تنقید کی، جو اس بحث میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹورس میزائل یوکرین کو بھیجنے کی میرس کی تجویز پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ ایسا کرنے سے روس کے ساتھ "بڑھتے ہوئے خطرات کا سلسلہ" شروع ہو جائے گا۔
وائیڈل نے جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی تعریف کی۔
گرینز پارٹی کی ایک رکن انالینا بیئربوک، جو اس وقت ملک کی وزیر خارجہ ہیں، نے وائیڈل پر تنقید کی، جن کی ایک رہائش گاہ سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ بیئربوک نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جرمنی میں برینڈن برگ ریاست میں رہتی ہیں، اور یوکرین کی سکیورٹی پڑوسی ملک پولینڈ کو متاثر کر سکتی ہے، جو برانڈنبرگ کے قریب ہے۔
بائیں بازو کی پارٹی کے امیدوار ژان فان آکن سے پوچھا گیا کہ اگر ٹرمپ امریکہ کو نیٹو سے نکال لیتے ہیں تو کیا یہ یورپ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ فان آکن نے کہا کہ "طویل مدتی" میں یہ بہتر ہو گا۔ لیکن فری ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کرسٹیان لنڈنر نے فان آکن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس طرح کے بیان کو "غیر ذمہ دارانہ" قرار دیا۔
توانائی ایک اہم موضوع
جرمنی میں توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے حوالے سے بائیں بازو کی پارٹی کے ژان فان آکن نے کہا، "ماحولیات کی حفاظت نہ کرنے سے ہمیں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔"
فان آکن نے دعویٰ کیا کہ معاشرے کے 10فیصد افراد اوسط جرمن شہری کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں۔ فان آکن موسمیاتی اقدامات کی مالی اعانت کے لیے امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانا چاہتے ہیں۔
سی ڈی یو کے لینیمان نے' ہیٹنگ قانون' پر تنقید کی اور اسے " گڑبڑ" قرار دیا۔ اس قانون کا مقصد جرمنی میں ان گھروں میں حرارتی نظام کو تبدیل کرنا ہے جو زیادہ تر قابل تجدید توانائی استعمال کرتے ہیں۔
سی ڈی یو نے ہیٹنگ قانون کو ان لوگوں کے لیے منفی قرار دیتے ہوئے تنقید کی جو جرمنی میں گھروں کے مالک ہیں۔ لینیمان اور سی ڈی یو اس قانون کو منسوخ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایف ڈی پی کے کرسٹیان لنڈنر نے کہا کہ وہ گیس اور آئل ہیٹنگ پر پابندی کے خلاف ہیں، اور کہا کہ حکومت کو اپنی توانائی کی پالیسی کے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کے لیے کھلا رکھنا چاہیے۔
اے ایف ڈی کی ایلیس وائیڈل نے سی ڈی یو رہنما سابق چانسلر انگیلا میرکل کے دور حکومت میں جرمنی کی توانائی کی پالیسی پر تنقید کی۔ میرکل 2021 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئی تھیں۔ تاہم وائیڈل نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنی کوئی ٹھوس پالیسی پیش نہیں کی۔
صحت کی دیکھ بھال کا نظام
بحث کا ایک اور موضوع جرمنی کے نظام صحت کی حالت تھی۔
پارٹیوں کے ارکان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی میں نجی ہیلتھ انشورنس کو ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے سوال کے جواب میں "ہاں" یا "نہیں" کے ساتھ کارڈ اٹھائے۔
جرمنی میں زیادہ تر لوگ صحت عامہ کے سرکاری انشورنس پر منحصر ہیں جو غیر منفعت بخش "علالت فنڈز" کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو زیادہ کمانے والے سمجھے جاتے ہیں، اور ایک مخصوص رقم سے زیادہ کماتے ہیں ان کے پاس نجی انشورنس لینے کا متبادل ہوتا ہے۔
بی ایس ڈبلیو، بائیں بازو کی پارٹی، ایس پی ڈی اور گرینز پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس کے خاتمے کے حق میں ہیں لیکن ایف ڈی پی، سی ڈی یو اور اے ایف ڈی اس خیال کے خلاف ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز ( ڈی پی اے، ڈی ڈبلیو)