جرمن پارلیمانی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل کرائے جانے والے ایک جائزے کے نتائج کافی حد تک حیران کن سامنے آئے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت ’اے ایف ڈی‘ تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار بلڈ ام زونٹاگ کے اس جائزے کے مطابق اے ایف ڈی یعنی آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (جرمنی کے لیے متبادل) نامی یہ جماعت مقبولیت کے حوالے سے تمام دیگر چھوٹی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ مسلم اور مہاجرین مخالف اس جماعت کو گیارہ فیصد تک ووٹ مل سکتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایف ڈی پارلیمان میں تیسری بڑی قوت ہو گی۔ اگر یہ جماعت دس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو گزشتہ نصف صدی کے دوران جرمن پارلیمان تک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کسی جماعت کے پہنچنے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔
دوسری جانب فری ڈیموکریکٹ پارٹی ( اے ایف ڈی) اور ماحول دوست گرین پارٹی اپنی اپنی مقبولیت کے اعتبار سے بالترتیب نو اور آٹھ فیصد پر ہیں۔ قبل از انتخابات کرائے جانے والے اس تازہ جائزے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے مابین مقبولیت کا فرق مزید بڑھ گیا ہے۔ سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین کی مقبولیت چھتیس فیصد جبکہ سوشل ڈیموکریٹس بائیس فیصد پر ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
اس جائزے میں شامل افراد سے جب پوچھا گیا کہ آخر قوم پرست اے ایف ڈی کی پذیرائی میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ تو58 فیصد کا جواب تھا کہ چانسلر میرکل کی غلط پالیساں اس کی ذمہ دار ہیں جبکہ اڑتالیس فیصد اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ اس دوران ایف ڈی پی اور گرین پارٹی نے کہا ہے کہ انتخابات میں تیسری بڑی جماعت کی دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماحول دوست گرین پارٹی کو پوری امید ہے کہ سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے بعد وہ ہی تیسرے نمبر پر ہوں گے۔ اتوار کو گرین پارٹی کے اجلاس میں جماعت کی رہنما کاتھرن گؤرنگ ایککارڈ نے وعدہ کیا کہ ان کی جماعت ’’انتخابات میں سیاسی حلقوں کو حیران کر سکتی ہے۔‘‘
اسی طرح فری ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما کرسٹیان لنڈنر نے کہا ہے کہ گرین پارٹی کا تیسری بڑی جماعت بننے کا کوئی امکان ہے۔ ان کے بقول اگر میرکل نے ایک مرتبہ پھر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد بنایا توان کی جماعت حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔ اس موقع پر لنڈنر نے زور دے کر کہا کہ اپوزیشن کی سربراہی عوامیت پسند اے ایف ڈی کے پاس نہیں جانی چاہیے۔
جرمنی، بنیادی سیاسی ڈھانچہ اور آئندہ پارلیمانی انتخابات