جرمن انتخابات میں تارکین وطن کے ووٹ فیصلہ کن ہو سکتے ہیں
بینش جاوید گروناؤ، بیئر باخ
13 ستمبر 2017
جرمنی میں لگ بھگ 3.1 ملین تارکین وطن رہائش پذیر ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 24 ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں سات لاکھ تیس ہزار ترک نژاد جرمن شہری ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔
اشتہار
جب سن 1994 میں چیم اوئزدیمیر پہلے ترک نژاد جرمن شہری کے طور پر جرمن پارلیمان کے رکن بنےتو ان کے دفتر میں کئی ناراض افراد کے فون آئے۔ کئی لوگوں نے سوال کیا کہ یہاں ایک ترک کیا کر رہا ہے ؟ ایک نے یہ سوال اٹھایا کہ ایک ترک شہری کوجرمن پارلیمان میں بیٹھنے کی اجازت کس نے دی ؟ آج اوئزدیمیرجرمنی کی اہم سیاسی جماعت گرین پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں۔ ان کا شمار ان گیارہ ارکان پارلیمان میں ہوتا ہے جو ترک نژاد ہیں۔
جرمنی کے رجسٹرڈ ووٹروں کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی اب تیزی سے ایک متنوع ملک بن رہا ہے۔ ہر دس میں سے ایک ووٹر ایسا ہے جس کے والدین جرمنی میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔جرمن پارلیمنٹ میں 631 میں سے 37 ایسے ارکان ہیں جو یا تو ہجرت کر کے جرمنی آئے تھے یا پھر وہ تارکین وطن کی اولاد ہیں۔ اب جرمن سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی تارک وطن پس منظر رکھنے والے ووٹرز پر توجہ دے رہے ہیں۔ ترک نژاد جرمن شہریوں اور سابقہ سوویت ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو خاص توجہ دی جارہی ہے۔
وفاقی جرمن پارلیمان کا رکن کیسے بنا جاتا ہے؟
01:56
تارک وطن پس منظر رکھنے والے ووٹرز اکثر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف مائل نظر آتے ہیں تاہم یہ تاثر جرمنی میں مکمل طور پر درست ثابت نہیں ہوتا۔ جرمن ووٹرز پر تحقیق کرنے والی ایک محقق ڈینس سپائز نے ڈی ڈبلیو کوبتایا،’’ ترک نژاد جرمن شہری زیادہ تر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جبکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف مائل ہیں۔‘‘
جرمنی میں تارکین وطن سے متعلق قوانین کے مطابق سابقہ سوویت پس منظر رکھنے والے تارکین وطن کے لیے جرمن شہریت حاصل کرنا آسان ہے۔ کیوں کہ سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے سویت یونین کے خاتمے کے بعد اس قانون کی حمایت کی تھی اس لیے روسی نژاد جرمن شہری کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے مخلص ووٹرز تھے۔ لیکن جب سے انگیلا میرکل نے دس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو ملک میں قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا تب سے ان افراد کی جانب سے سی ڈی یو کی حمایت میں کمی آئی ہے۔
کیا اسلام جرمن معاشرے کا حصہ ہے ؟
01:14
This browser does not support the video element.
دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی اب روسی نژاد جرمنوں کو روسی زبان میں مہم کے ساتھ اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور روسی نژاد جرمن شہریوں میں یہ جماعت اسلام اور تارکین وطن نظریات کی وجہ سے خاصی مقبول بھی ہوئی ہے۔
ترک نژاد جرمن شہریوں کی لگ بھگ ستر فیصد تعداد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا ایس پی ڈی کو ووٹ دیتی ہے کیوں کہ یہ وہ سیاسی جماعت تھی جس نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک شہریوں کو جرمنی میں بطور ’مہمان کارکن‘ خوش آمدید کیا تھا۔ ایس پی ڈی روایتی طور پر جرمنی میں ملازمت پیشہ افراد کی جماعت رہی ہے۔ یہی وہ جماعت تھی جس نے تارکین وطن کے لیے دوہری شہریت رکھنےکا قانون نافذ کرنے پر بھی زور ڈالا تھا۔ ترک نژاد شہری گرین پارٹی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
جرمن سیاسی جماعتوں اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان تناؤ کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ ترک شہری کس جماعت کو ووٹ دیں گے۔ ایردوآن نے حال ہی میں ترک نژاد جرمن شہریوں کو کہا تھا کہ وہ سی ڈی یو، ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کو ووٹ مت دیں۔ تاہم کئی جرمن سیاست دانوں نے ترک نژاد جرمن شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ ترک صدر کی وجہ سے آپ جرمن معاشرے میں اپنے آپ کو دیوار سے مت لگائیں۔