جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ
10 فروری 2025
ایس پی ڈی کے رہنما اور چانسلر اولاف شولس اور ان کے اہم حریف قدامت پسند سی ایس یو ⁄ سی ڈی یو بلاک کے فریڈرش میرس کے درمیان پہلے اہم مباحثے میں دونوں رہنماؤں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے۔
شولس موجودہ چانسلر ہیں، لیکن میرس کو امید ہے کہ وہ 23 فروری کے بعد ان کی جگہ لیں گےتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
اشتہار
جرمنی میں 23 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل رائے شماری کے جائزوں کے مطابق قدامت پسند سی ایس یو ⁄ سی ڈی یو بلاک تیس فیصد حمایت کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد 20 فیصد کے ساتھ اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر اور سولہ فیصد کے ساتھ شولس کی ایس پی ڈی تیسرے نمبر پر ہے۔
تقریباً 90 منٹ تک جاری رہنے والی بحث کے دوران، چانسلر اولاف شولس اور مستقبل کے جرمن چانسلر کے لیے پسندیدہ امیدوار، فریڈرش میرس، نے ملک کے مستقبل اور مختلف امور کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے۔
شولس نے اگلے کم از کم چار سالوں کے لیے جرمنی کو اپنے دفاع کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد مختص کرنے پر زور دیا، جب کہ میرس کا کہنا تھا کہ وہ جی ڈی پی کا کم از کم تین فیصد چاہتے ہیں۔
چانسلر شولس نے کہا کہ برلن صرف اسی صورت میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کر سکے گا جب روکاوٹ کو ہٹا دے۔
میرس کا کہنا تھا کہ جرمنی کو دو فیصد سے زیادہ کی ضرورت ہے، "لیکن پہلے اسے قدم بہ قدم دو فیصد تک پہنچنے کی ضرورت ہو گی۔" انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک "مضبوط معیشت" میں مزید ترقی کے ساتھ دفاع کے لیے مزید فنڈز وقف کر سکتا ہے۔
میرس نے کہا کہ وہ "ملکی بجٹ کی ضروریات کی از سر نو ترجیحات طے کریں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی "سبسڈی کو کم کر سکتا ہے" اور "عوامی خدمات اور ۔۔۔۔ وہاں کام کرنے والوں کی تعداد پر نگاہ ڈال سکتا ہے۔"
جرمن انتخابات 2025ء: چانسلرشپ کا امیدوار کون کون؟
جرمنی میں تیئیس فرورری کے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے امیدواروں کے بارے میں جاننے کے لیے دیکھیے ڈی ڈبلیو کی یہ پکچر گیلری۔ #BTW2025 جرمن_انتخابات_2025#
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
اولاف شولس ، ایس پی ڈی (پیدائش: انیس سو اٹھاون)
سوشل ڈیموکریٹ شولس کے پاس کبھی بھی خود اعتمادی کی کمی نہیں رہی، وہ خود کو ایک مؤثر اور باشعور عملیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاء فرم چلائی، اور پھر عشروں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں ہیمبرگ میں حکومتی عہدوں سمیت وفاقی سطح پر وزیر محنت، وزیر خزانہ اور وفاقی جرمن چانسلر کے اہم ترین عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن اب انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں کم عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
فریڈرش میرس، سی ڈی یو (پیدائش: انیس سو پچپن)
قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔ ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔
تصویر: Ruffer/Caro/picture alliance
رابرٹ ہابیک، گرینز (پیدائش: انیس سو انہتر)
ہابیک اپنے مخصوص ہیئر اسٹائل اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ عوامی شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ اس عملیت پسند سیاست دان کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یہ ہابیک ہی تھے، جنہوں نے عوام کے سامنے حکومتی سیاسی فیصلوں کی وضاحت کرنے اور اپنے حکومتی شراکت داروں کے تکبر زدہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور دلکش الفاظ تلاش کیے تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے قبل وہ ایک مصنف، مترجم اور فلسفی رہے ہیں۔
تصویر: appeler/dpa/picture alliance
ایلیس وائیڈل، اے ایف ڈی (پیدائش انیس سو اناسی)
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی ) کی شریک چیئر پرسن وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، چین میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور یورو اور نیٹو کے بارے میں شکوک و شبہات سے کام لیتی ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
سابق وزیر خزانہ لنڈنر نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، اپنے چھوٹے سے تشہیری کاروبارکی بنیاد رکھی اور وہ جرمن فضائیہ میں ایک ریزرو افسر بھی ہیں۔ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اپنی نیو لبرل فری ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور ابھی تک اس کے بلامقابلہ رہنما ہیں۔ ان کی شہرت سوشل میڈیا کے ماہر اور اسٹائلش انسان کے طور پر ہے اور وہ اسپورٹس کاروں سے اپنی محبت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance
سارہ واگن کنیشت، بی ایس ڈبلیو (پیدائش: انیس سو انہتر)
واگن کنیشت لیفٹ پارٹی کی ایک سابقہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ وہ اکثر ٹاک شوز میں بطور مہمان شرکت کرتی ہیں اور عوامیت پسندانہ بیان بازی کی ماہر ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دانوں کو احمق اور منافق قرار دیتی ہیں۔ وہ قدامت پسند سماجی اور بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن مخالف پوزیشنوں کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت ’الائنس سارہ واگن کنیشت‘ پر مکمل غلبہ رکھتی ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ژان فان آکن، لیفٹ پارٹی (پیدائش: انیس سو اکسٹھ)
فان آکن مغربی جرمنی میں پیدا ہوئے، انہوں نے حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور 2004ء سے 2006ء تک اقوام متحدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے انسپکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ 2009 ء سے 2017 ء تک جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں لیفٹ پارٹی کے قانون ساز بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی اس جماعت کے شریک چیئرمین بھی رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
تصویر: Axel Heimken/dpa/picture-alliance
7 تصاویر1 | 7
جرمنی ٹرمپ سے کیسے نمٹے گا؟
مباحثے کے موڈریٹرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بھی دونوں رہنماؤں سے سوالات کیے۔ اس نے صدر ٹرمپ کے اکثر غلط رویے کی طرف اشارہ کیا، پھر میرس سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ امریکی صدر"توقعات کے قابل" ہیں جیسا کہ انھوں نے ماضی میں کہا تھا۔
اشتہار
میرس کا جواب تھا، "یہ درست ہے کہ وہ ممکنہ طور پر غیر متوقع ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "بحر اوقیانوس کے اس جانب متحد ہونا ہمارے لیے اہم ہے۔" انہوں نے بتایا کہ کس طرح ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن گرین لینڈ کے بارے میں ٹرمپ کے تبصروں سے "بہت فکر مند" تھے، اور کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے ان سے اس پر بات کی تھی۔
میرس نے کہا، "ہمیں ایک مشترکہ یورپی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ یورپ ایک ساتھ مل کر امریکہ کے مقابلے میں زیادہ آبادی والا علاقہ ہے، اور ہم اقتصادی طاقت کے لحاظ سے بھی اہم ہیں، اور اگر ایک متحدہ محاذ کو برقرار رکھا جائے تو اس سے دوستانہ اور باہمی طور پر فائدہ مند سمجھوتوں تک پہنچنا ممکن ہو گا۔
اس دوران شولس نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا، "وہ حکمت عملی جو میں پہلے ہی استعمال کر چکا ہوں، یعنی واضح الفاظ اور دوستانہ گفتگو۔"
انہوں نے جرمنی کی امریکہ کے ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیا لیکن کہا "ہمیں اپنے آپ کو جھکانا نہیں چاہیے۔"
شولس نے کہا، "ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔" شولس کا کہنا تھا کہ وہ پہلے یورپی رہنما ہیں جنہوں نے کہا کہ گرین لینڈ پر قبضے کی تجویز ناقابل غور ہے۔
شولس اور میرس دونوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ پر قبضہ کرنے اور اسے دوبارہ ترقی دینے کی تجویز کو مسترد کرنے پر بھی اتفاق کیاتصویر: Jehad Alshrafi/AP/picture alliance
غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے پریہ رہنما کیا سوچتے ہیں؟
دونوں سیاست دانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ پر قبضہ کرنے اور اسے دوبارہ ترقی دینے کی تجویز کو مسترد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
شولس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی کو "مشرق وسطیٰ کے رویرا" میں تبدیل کرنے کے منصوبے کو وہاں تباہی اور مصائب کی حد کو دیکھتے ہوئے ایک "اسکینڈل" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے، یہ حیران کن ہے۔
میرس نے کہا کہ وہ اس رائے سے متفق ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ تجویز نئے امریکی صدر کے پیش کردہ متعدد "پریشان کن" خیالات میں سے ایک تھی لیکن "ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ سنجیدگی سے کیا مراد ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ کی نئی شرائط جاری رہتی ہیں تو صبر سے کام لینا دانشمندانہ ثابت ہو سکتا ہے۔