1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن انتخابی قوانین خلاف آئین، آئینی عدالت

25 جولائی 2012

وفاقی جرمن آئینی عدالت نے جرمن انتخابی قوانین کو آئین سے متصادم اور پارلیمانی اراکین میں نشستوں کی تقسیم کو غیر مؤثر قرار دے دیا ہے۔ اس طرح آئندہ برس مجوزہ انتخابات سے پہلے نیا انتخابی قانون منظور کیا جانا پڑے گا۔

تصویر: Reuters

جرمن شہر کارلسروہے میں قائم آئینی عدالت کے ججوں نے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے انتخابات سے متعلق قوانین کے بارے میں اپنا یہ فیصلہ آج بدھ کو سنایا ہے۔ واضح رہے کہ یونین جماعتوں اور ایف ڈی پی پر مشتمل حکمران اتحاد نے اپوزیشن کے ساتھ اتفاقِ رائے نہ ہونے کے بعد اکیلے ہی انتخابی قوانین میں اصلاحات کی منظوری دے دی تھی۔ ان اصلاحات کے خلاف اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی، گرینز اور تین ہزار سے زائد شہریوں نے کارلسروہے کی آئینی عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔

جرمن دستوری عدالت کے جج صاحبانتصویر: Reuters

کارلسروہے کے ججوں نے 2008ء میں بھی انتخابی قوانین کو جزوی طور پر خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے تین سال کے اندر اندر نئے ضوابط کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ تاہم اب ججوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور اس بار اُنہوں نے کسی عبوری مدت کا ذکر کیے بغیر فوری طور پر موجودہ انتخابی قوانین کے مرکزی ضوابط کو خلاف آئین قرار دے ڈالا ہے۔ چنانچہ آج کے فیصلے کی روشنی میں دیکھا جائے تو فی الوقت جرمن پارلیمان کے انتخابات اور نشستوں کی تقسیم سے متعلق کوئی مؤثر قانون موجود نہیں ہے۔

جرمن پارلیمان کے لیے اگلے انتخابات زیادہ سے زیادہ اکتوبر 2013ء تک منعقد ہو جانے چاہییں لیکن اُس سے پہلے پہلے ایک نیا انتخابی قانون منظور کیا جانا پڑے گا۔

آج اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی جرمن آئینی عدالت کے صدر جج آندریاز فوس کوہلے نے کہا، ’’اراکین پارلیمان کی نشستوں کی تقسیم سے متعلق قواعد و ضوابط کئی اعتبار سے اُس ملکی آئین سے متصادم ہیں، جس میں انتخابی قوانین میں مساوات اور سیاسی جماعتوں کے لیے مساوی مواقع کے حق کا ذکر کیا گیا ہے‘‘۔

جرمن دستوری عدالت کا صدر دفترتصویر: AP

عدالت نے انتخابی قوانین کے اُن ضوابط پر خاص طور پر اعتراض کیا ہے، جن کے تحت زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کو کم نشستیں ملتی ہیں۔ کئی دیگر متنازعہ ضوابط کے تحت یہ بھی ممکن ہے کہ کم ووٹ لینے والی جماعتوں کو زیادہ نشستیں مل جائیں۔

ججوں نے اضافی نشستوں کی تقسیم کو خاص طور پر ہدفِ تنقید بنایا۔ یہ اضافی نشستیں اُس وقت ملتی ہیں، جب کسی جماعت کے براہِ راست منتخب ہو جانے والے اراکین کی تعداد اُس سے زیادہ بنتی ہو، جتنی کہ ’سیکنڈ ووٹ‘ کے ذریعے اُن کے حصے میں آتی ہو۔ یہ اضافی نشستیں عام طور پر بڑی جماعتوں کو ملتی ہیں اور 2009ء کے انتخابات میں تمام چوبیس اضافی نشستیں یونین جماعتوں کے حصے میں آئی تھیں۔

aa/ah(dpa)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں