جرمن اپوزیشن لیڈر مخلوط حکومت کی فوری تبدیلی کے خواہاں
25 دسمبر 2023
سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس زیادہ ٹرن آؤٹ کے لیے جرمن اور یورپی پارلیمان کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے حق میں ہیں۔ تاہم وہ آئندہ کسی گرینڈ الائنس میں چانسلر اولاف شولس کی جماعت کی شمولیت کے مخالف ہیں۔
اشتہار
جرمنی کی قدامت پسند حزب اختلاف کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس یونین (سی ڈی یو) کے رہنما فریڈرش میرس نے موجودہ مخلوط حکومت کو فوری تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔ اس مخلوط حکومت کی قیادت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے اولاف شولس کر رہے ہیں۔
میرس نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان بجٹ تنازعے کے پیش نظر سی ڈی یو اور اس کی باویرین اتحادی پارٹی سی ایس یو کی قیادت میں ایک قدامت پسند وفاقی حکومت کے قیام کے حق میں ہیں۔
اگر مخلوط حکومتی اتحاد بجٹ پیش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو نو جون کو قبل از وقت وفاقی انتخابات اسی دن کرانے پر غور کیا جا سکتا ہے، جب یورپی پارلیمان کے انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ تاہم قبل از وقت انتخابات کا راستہ پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے چانسلر اولاف شولس کی جماعت ایس پی ڈی کو پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا اور پھر اسے ہارنا پڑے گا۔ فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
میرس نے کہا کہ وفاقی جرمن اور یورپی انتخابات کے ایک ساتھ کرانے سے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں زیادہ ٹرن آؤٹ کو تقویت مل سکتی ہے۔ ایسے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹوو فار جرمنی (اے ایف ڈی) 2024ء میں خاص طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ تاہم بعض حلقوں کو امید ہے کہ انتخابات میں ایک بڑا ٹرن آؤٹ اے ایف ڈی کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
میرس نے سوال اٹھایا، ''کیا ایس پی ڈی کے ساتھ اتحاد عددی اعتبار سے کافی ہے، جو بطور ایک سیاسی جماعت سکڑتی جا رہی ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''اور بالکل واضح طور پر میرے پاس ایس پی ڈی کے لیےکو ئی زیادہ ہمدردی نہیں ہے۔‘‘
میرس کا کہنا تھا، ''ایس پی ڈی کا پولنگ میں حصہ اب 14 فیصد ہے۔ اب اس موقع پر آپ اس جیسی پارٹی کے ساتھ گرینڈ اتحاد نہیں کر سکتے۔ ہم یقینی طور پر اتحادی بیانیے کے ساتھ انتخابات میں نہیں جا رہے۔‘‘
خیال رہے کہ فی الحال میرس کی جماعت سی ڈی یو اور اس کی اتحادی سی ایس یو کا انتخابی پولنگ میں حصہ 31 اور 34 فیصد کے درمیان ہے۔
ش ر⁄ ا ا (ڈی پی اے)
نئی جرمن پارلیمان: نئے چہروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ جوان
ایک ماہ قبل جرمنی میں عام انتخابات میں نئی وفاقی پارلیمان منتخب کی گئی تھی۔ چھبیس اکتوبر کو نئی پارلیمان کا اولین اجلاس منعقد ہوا۔
تصویر: CSU
نوجوان پارلیمان
اپنے اراکین کی اوسط عمر کے لحاظ سے سات سو چھتیس رکنی نئی بنڈس ٹاگ سابقہ پارلیمان سے واضح طور پر زیادہ نوجوان ہے۔ ان میں سب سے کم عمر رکن تیئیس سالہ ایمیلیا فیسٹر ہے۔ سینتالیس اراکین کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ایک اوسط سیاستدان
نئی بنڈس ٹاگ میں قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے میشائل برانڈ سینتالیس برس کے ہیں اور یہی اس نئی جرمن پارلیمان کے اراکین کی اوسط عمر ہے۔ وہ ایک وکیل ہیں اور یہ جرمن سیاستدانوں کا مقبول پیشہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے نام کا ابتدائی حصہ میشائل ہے اور یہی نئی جرمن پارلیمان کا سب سے زیادہ مشترکہ نام بھی ہے۔
تصویر: HMB Media/Mueller/picture alliance
بزرگ سیاستدان
نئی جرمن پارلیمان کے سب سے بزرگ سیاستدان الیگزانڈر گاؤلانڈ ہیں اور ان کی عمر اسی برس ہے۔ ان کا تعلق عوامیت پسند سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی یا اے ایف ڈی سے ہے۔ سی ڈی یو کے ساتھ طویل عرصے سے وابستگی رکھنے والے وولف گانگ شوئبلے نے نئی پارلیمنٹ کے اولین سیشن کا آغاز کیا۔
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance
صنفی تنوع
گزشتہ کے مقابلے میں نئی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی تعداد چار فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کے اراکین میں ہوا ہے۔ حقیقی صنفی برابری کی سمت یہ ایک سست رفتار عمل ہے۔ چوالیس سالہ ٹیسا گانزیرر اور ستائیس سالہ نائک سلاوک پہلی ٹرانس جینڈر خواتین ارکان ہیں۔ اس موقع پر سلاوک نے ٹویٹ کی کہ ان کی کامیابی کی کہانی دنیا بھر میں مقبول ہو گی۔
مہاجرت کی تاریخ
جرمن پارلیمان کے تراسی اراکین کا تعلق تارکین وطن کی برادریوں سے ہے۔ زیادہ تر اراکین لیفٹ پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ایس پی ڈی کی انتیس سالہ راشا نصر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ شامی والدین کی اولاد ہیں اور مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں پیدا ہوئی تھیں۔
تصویر: SPD
افریقی نژاد جرمنوں کی نمائندگی
آرمانڈ سورن جرمنی کی بڑھتی ہوئی افریقی نژاد برادری کے نمائندہ ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سورن افریقی ملک کیمرون میں پیدا ہوئے اور بارہ سال کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ ستمبر کے انتخابات میں وہ براہ راست نشست جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔ اس تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا انتخاب واضح کرتا ہے کہ جرمن معاشرہ بہت متنوع ہے۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture-alliance
اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ
زیادہ تر اراکینِ پارلیمان یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم رکھتے ہیں۔ بہت کم ووکیشنل تعلیم کے حامل ہیں۔ اِن میں سے ایک انسٹھ سالہ گلستان اؤکسیل ہیں۔ وہ سن ستر کی دہائی میں جرمنی پہنچنے والے ایک مہمان کارکن کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے فارمیسی اسسٹنٹ کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ رکن پارلیمان سن 2013 میں بنی تھیں۔
تصویر: Jens Krick/Flashpic/picture alliance
کاروباری افراد
جرمن پارلیمنٹ میں چھوٹے کاروباری طبقے کی نمائندگی توقع سے کم ہوتی ہے۔ اس مرتبہ اس طبقے کے اکاون اراکین ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق کاروبار دوست سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان میں سے ایک کرسٹینے لیُوٹکے ہیں۔ اڑتیس سالہ لیُوٹکے نے ایک اولڈ پیپلز ہوم کا انتظام اپنے والدین سے سنبھالا۔
تصویر: FDP/Heidrun Hoenninger
وبا کے باوجود ماہرین صحت کی کمی
کووڈ انیس کی وبا نے ہیلتھ سیکٹر کی اہمیت کو اجاگر ضرور کیا لیکن پارلیمنٹ میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف چند ایک ڈاکٹرز ہیں اور باقی کئی صحت کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صوبے باویریا کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین کے اشٹیفان پِلزِنگر ہیں، جو ایک ماہر ڈاکٹر ہیں۔