1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن باشندوں کی اکثریت کے ہاں مسلمانوں کے بارے میں تحفظات

14 دسمبر 2010

یورپ میں مذہبی تنوع کے بارے میں کروائے جانے والے ایک سروے کا اہم ترین نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ زیادہ تر جرمن باشندے اسلام اور دیگر غیر مسیحی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بہت کم رواداری کا جذبہ رکھتے ہیں۔

جرمنی کی شاہراہوں پر ثقافتی تنوع نظر آتا ہےتصویر: DW

جرمنی کی معروف میونسٹر یونیورسٹی کی طرف سے مرتب کئے گئے ایک تازہ ترین جائزے سے پتہ چلا ہے کہ جرمن عوام کی اکثریت کے ہاں مسلمانوں کی جانب رواداری دیگر مغربی یورپی ممالک کے مقابلے میں کہیں کم پائی جاتی ہے۔ یورپ میں مذہبی تنوع کے بارے میں کروائے جانے والے اس سروے کا اہم ترین نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ زیادہ تر جرمن باشندے اسلام اور دیگر غیر مسیحی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بہت کم رواداری کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ سروے میونسٹر یونیورسٹی نے جرمنی کے عوامی رائے سے متعلق ریسرچ کے ایک معروف ادارے TNS Emnid کے تعاون سے کروایا۔ اس سروے میں جرمنی کے علاوہ فرانس، ڈنمارک، ہالینڈ اور پرتگال کے باشندوں کی رائے بھی شامل کی گئی اور سروے کے نتائج کا تقابل کیا گیا۔

جرمن فٹ بال ٹیم میں تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی بھی موجود ہیںتصویر: AP Graphics/DW Fotomontage

یہ سروے اس سال موسم گرما میں کروایا گیا۔ اس میں 1000 افراد سے انٹرویوز کئے گئے۔ ماہر سماجیات Niels Friedrichs اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہیں "مذہبی تنوع کے بارے میں پانچ یورپی ممالک میں کروائے گئے اس سروے کے نتائج بہت مختلف رہے۔ دراصل جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے یہاں بین المذاہب تنازعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں مساجد کی تعمیر اور مسلمان عورتوں کے ہیڈ اسکارف باندھنے پر پابندی کی بحث"۔

Niels Friedrichs کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ اس سروے میں شامل دیگر ممالک کے شرکاء کے خیالات بھی مختلف وجوہات کے سبب دلچسپ ہیں۔ مثلاً فرانس اور ہالینڈ میں مسلمان لڑکیوں اور خواتین کے سر ڈھانپنے یا اسکارف پہننے پر جس سطح پر اور جس انداز میں بحث ہوتی رہی، وہ غیر معمولی ہے۔ دوسری جانب رودار اور کشادہ دل تصور کئے جانے والے ولندیزی معاشرے کا رویہ گزشتہ برسوں میں کافی بدل گیا ہے۔ خاص طور سے معروف ولندیزی مصور اور اسلام کے سخت ناقد تھیو فان گوخ کے قتل کے بعد سے ہالینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک میں واضح تبدیلی آ ئی ہے اور اس ملک کو اب اتنا روادار نہیں سمجھا جا رہا، جتنا کہ اِسے ماضی میں سمجھا جاتا تھا۔

فرانس میں نقاب پر پابندی سے متعلق طویل بحث رہیتصویر: picture alliance / dpa

ہالینڈ کے مقابلے میں پرتگال کی صورتحال بالکل الٹ ہے کیونکہ وہاں مذہبی تنوع اتنا وسیع نہیں ہے، جتنا کہ دیگر مغربی یورپی ممالک میں۔

میونسٹر یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والی اس تحقیق کے سربراہ اور مذہبی سماجیات کے ماہر Detlef Pollack نے اس ریسرچ کی رپورٹ متعارف کراتے ہوئے کہا "ہم نے اس تحقیق کے دوران یہ اندازہ لگایا کہ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں غیر مسیحی عقائد سے تعلق رکھنے والی برادریوں کی طرف معاشرے کے اکثریتی عوام کا رویہ کافی حد تک غیر روادارانہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی اندازہ ہوا کہ جرمن عوام اپنے ملک میں نئی مساجد اور میناروں والی مسجدوں کی تعمیر کے بالکل حق میں نہیں ہیں۔ جبکہ دیگر ممالک میں اس بارے میں کئے گئے سروے کے نتائج کہیں مختلف نکلے"۔

تاہم Detlef Pollack کا کہنا ہے کہ مذہبی رواداری کے ضمن میں جرمنی میں تحفظات پائے جانے کے باوجود ایک اور اہم اور مثبت رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ اُن کے بقول" ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اس سروے کے نتائج دو حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں ایک یہ کہ جرمنی میں ایک طرف تو اسلام کے بارے میں عوامی سطح پر تحفظات پائے جاتے ہیں، دوسری جانب جرمن باشندے مذہبی آزادی اور باہمی احترام کا بھرپور دفاع بھی کرتے ہیں"۔

جرمنی میں غیر ملکیوں کے انضمام کے سلسلے میں متعدد پروجیکٹس شروع کئے گئے ہیںتصویر: dapd

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں عوامی رویے میں پائے جانے فرق کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جرمن معاشرے میں مسلمان چند دیگر یورپی ممالک کے نسبت زیادہ نظر آتے ہیں اور مقامی لوگوں کا اسلامی طرز زندگی سے دیگر یورپی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ تاہم فرانس اس سلسلے میں جرمنی سے آگے ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں