جرمنی میں بدھ کے روز ایک کنڈرگارٹن کو اس وقت ہنگامی طور پر خالی کرا لیا گیا، جب ایک بچہ اپنی کلاس میں ایک بم لے کر آ گیا۔ بچہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی کھلونا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
اشتہار
جرمن پولیس کے مطابق یہ بچہ جو بم اپنی کلاس میں لے کر آ گیا تھا، وہ دراصل دوسری عالمی جنگ کے دوران پھینکا گیا ایک بم تھا۔ جرمنی کے مغربی شہر ڈارم اشٹٹ میں پولیس کی ایک ترجمان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’چھوٹے بچے کو جنگل میں چلتے ہوئے یہ بم ملا تھا اور وہ اسے اٹھا کر کنڈرگارٹن لے آیا تھا۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ بچے نے یہ بم لا کر ایک ایسی الماری میں رکھ دیا تھا، جہاں بچے معمول کے مطابق اپنی چیزیں رکھتے ہیں۔ پھر جب ایک ٹیچر کی اس ’عجیب چیز‘ پر نگاہ پڑی، تو وہ فوری طور پر تمام بچوں کو کنڈرگارٹن سے نکال کر باہر کھیل کے میدان میں لے گئیں اور پولیس کو اطلاع کر دی گئی۔
جب آسمان ہی جل اٹھا
اکتیس مئی 1942ء کو جب جرمنی کے شہر کولون میں کارپٹ بمبنگ شروع کی گئی تو برطانیہ نے اسے ’آپریشن ملینیم‘ کا نام دیا۔ کولون کے شہری اسے ’ہزار بموں کی رات‘ کا نام دیتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے اندر ہی شہر کا چہرہ بدل گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive
صرف تاریخی کولون کیتھیڈرل کو بخشا گیا
ہر طرف بمباری کی گئی لیکن یورپ کے دوسرے اور دنیا کے تیسرے بلند ترین گرجا گھر (کولون کیتھیڈرل یا کولون ڈوم) کو بخش دیا گیا۔ حقیقت میں اس کے دو بڑے مینار پائلٹوں کے لیے فوکس پوائںٹ بھی تھے۔ مذہبی طرز تعمیر نے بھی اس کیتھیڈرل کے بچاؤ میں مدد دی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
کولون کی دوبارہ تعمیر
سن 1945ء کے بعد سب کچھ تاریخی انداز میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ گھروں کی شدید ضرورت تھی۔ 3330 گھر اور 41 ہزار اپارٹمنٹس تباہ ہو چکے تھے۔ تیزی میں سستے گھر تعمیر کیے گئے لیکن تصویر میں نظر آنے والا کولون کا یہ حصہ تاریخی طرز تعمیر کا حامل ہے۔
تصویر: Imago/H. Galuschka
جب جنگ گھر پہنچی
جب اکتیس مئی کی رات بارہ بج کر سینتالیس منٹ پر بمباری شروع ہوئی تو ڈوم کے قریب 469 شہری ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کی شدید بمباری کی وجہ سے ہر طرف باردو کی بو تھی اور پینتالیس ہزار سے زائد شہری بے گھر ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
پرانے کولون کا خاتمہ
اکتیس مئی کی بمباری نے پرانی رومن نوآبادی کے چہرے، قرون وسطیٰ کے عظیم تجارتی روٹ اور اس یونیورسٹی شہر کے چہرے پر ایسے داغ ڈالے، جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ کولون اپنے ڈوم اور دریائے رائن کے بغیر بدصورت شہر ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
برطانیہ میں بھی متنازعہ
آرتھر ہیرس، جنہیں بمبار ہیرس بھی کہا جاتا ہے، کو جرمن شہروں پر ’کارپٹ بمباری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی شہروں کو ہدف بنانے اور عوامی ارادوں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کو برطانیہ میں بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان کا ایک مجسمہ بھی انتہائی خاموشی کے ساتھ نصب کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos/M. McNeill
بمباری کرنے والے برطانوی پائلٹ
ونسٹن چرچل ہر صبح حملہ آور کمان کو فون کر کے جرمنی کے خلاف ملنے والی کامیابیوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔ فضائیہ کے جنرل آرتھر کی کولون پر بمباری خود چرچل کے لیے بھی بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے آرتھر سے کہا تھا، ’’کولون پر بہت بمباری ہو چکی۔‘‘
تصویر: Getty Images/Keystone
’کولون کے لیے بم‘
جرمنی میں رات کے وقت بمباری کرنے کے لیے ایک لنکاسٹر بمبار کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا پوری جنگ فضائی حملوں سے جیتی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں۔ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے لیے بھی نقصان کم نہیں تھا۔ کسی بھی جنگی ہوائی جہاز میں سوار ہر دوسرا شخص دوبارہ گھر نہیں پہنچا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos
’بمبر ہیرس کی مردہ یادیں‘
ہیرس کی یادیں آج تک بارود سے جڑی ہوئی ہیں۔ ابھی تک کولون میں کھدائی کے دوران اس رات کے بم ملتے ہیں اور بعض اوقات پورے کے پورے علاقے خالی کرانا پڑتے ہیں۔ ابھی تک کولون کی زمین میں ایسے کتنے بم چھپے ہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہیرس کے بقول، ’’وہ مکمل جنگ چاہتے تھے، ہم نے انہیں وہی کچھ دیا، جس کی انہوں نے بھیک مانگی تھی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
8 تصاویر1 | 8
چند ہی منٹ بعد بم ڈسپوزل ٹیم کے اراکین کنڈرگارٹن پہنچ گئے اور اس بم کو ناکارہ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد تمام بچوں کو دوبارہ کنڈرگارٹن میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔ پولیس اور بم ڈسپوزل یونٹ کے عملے نے حفاظتی اقدامات کے تحت جنگل کے اس علاقے کی بھی چھان بین کی، جہاں سے بچے کو یہ بم ملا تھا۔ تاہم جدید آلات سے چیک کرنے کے بعد اس علاقے کو اب محفوظ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔
جرمنی بھر میں پولیس کی جانب سے یہ ہدایات جاری کی جا چکی ہیں کہ جنگلات، کھیتوں یا پھر گھروں کی تعمیر یا لان میں سے اگر کوئی بھی مشتبہ چیز ملے تو فوری طور پر حکام کو اطلاع دی جائے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اس قدر شدید بمباری کی گئی تھی کہ جنگ کے خاتمے کے ستر برس سے زائد عرصے بعد بھی جرمنی کے مختلف علاقوں سے ابھی تک ایسے بم ملتے رہتے ہیں، جو تب نہیں پھٹے تھے۔
گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر جرمن شہر آؤگسبُرگ میں ایک بڑا برطانوی بم ملا تھا، جس کے بعد 54 ہزار شہریوں کو ان کے گھروں سے عارضی طور پر نکال لیا گیا تھا۔ اسی طرح مئی میں ہینوور شہر میں بھی ایسا ہی ایک بم ملنے کے بعد 50 ہزار کے قریب شہریوں کو مختصر وقت کے لیے محفوظ مقامات پر جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھا۔
جب جرمن شہر ڈریسڈن راکھ کا ڈھیر بنا تھا
ڈریسڈن جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک تھا لیکن پھر ٹھیک ستّر برس پہلے دوسری عالمی جنگ میں اس پر اتحادی افواج نے اتنی شدید بمباری کی کہ پچیس ہزار انسان زندہ جل گئے اور شہر راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Getty Images/Matthias Rietschel
بمباری، تباہی اور لوٹ مار
دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ فروری 1945ء کو انگلینڈ سے 245 لنکاسٹر طیارے روانہ ہوئے، جن کا رُخ جرمن شہر ڈریسڈن کی جانب تھا۔ شب 9 بج کر 39 منٹ پر شہر میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی موت کا کھیل شروع ہو گیا اور صرف 23 منٹ میں اس پر برسائے گئے بموں نے شہر کے مرکزی حصے میں ایک سے دوسرے سرے تک آگ لگا دی۔ برطانوی اور امریکی طیاروں کی بمباری نے شہر کے پندرہ کلومیٹر علاقے کو ملیا میٹ کر ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائل چیپل کھنڈر میں تبدیل
وسط فروری 1945ء میں ہونے والی اس بمباری میں ڈریسڈن کے رائل چیپل (گرجا گھر) کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چھت اور گنبد منہدم ہو کر اندر جا گرے۔ یہ چرچ جرمن صوبے سیکسنی میں بننے والی بڑی کلیسائی عمارات میں سے ایک ہے۔ باقی جرمنی کی طرح یہاں بھی ملبہ ہٹانے کا کام بڑی حد تک خواتین نے انجام دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مارٹن لُوتھر بھی نہ بچ سکے
’چرچ آف آور لیڈی‘ کے عین سامنے ممتاز مصلح مارٹن لُوتھر کے لیے بنائی گئی یادگار واقع ہے۔ یہ یادگار بھی بمباری کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مارٹن لُوتھر کا یہ مجسمہ نامور مجسمہ ساز آڈولف فان ڈونڈورف نے 1861ء میں تخلیق کیا تھا لیکن اسے نصب کہیں 1885ء میں کیا گیا۔ لُوتھر نے 1516ء اور 1517ء میں ڈریسڈن کے دورے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بے دریغ بمباری کی ایک نمایاں مثال
ڈریسڈن میں باروک طرزِ تعمیر کا شاہکار ’چرچ آف آور لیڈی‘ 1726ء اور 1743ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ ستر سال پہلے کی بمباری سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ 1993ء تک اِسے اسی حالت میں ’بے دریغ بمباری کی ایک یادگار‘ کے طور پر باقی رکھا گیا تاہم تب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی چوٹی پر نصب سنہری صلیب برطانیہ کے ایک ایسے کاریگر نے تیار کی، جس کے والد نے پائلٹ کے طور پر اس شہر پر کی گئی بمباری میں حصہ لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
شہر کی نمایاں ترین علامت ایک نئی شان کے ساتھ
1994ء سے لے کر 2005ء تک ’چرچ آف آور لیڈی‘ کو دنیا بھر سے آنے والے عطیات کی مدد سے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً 130 ملین یورو لاگت آئی۔ اکیانوے میٹر بلند یہ چرچ اور اس کے آس پاس باروک طرزِ تعمیر میں بنائی گئی رہائشی عمارات صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں سیاحوں کی توجہ کا ایک نیا مرکز بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
تباہی کے اثرات ڈھونڈے سے نہیں ملتے
آج کل سیاح ڈریسڈن کے مرکز میں واقع پیلس اسکوائر اور کیتھولک رائل چیپل کی سیر کرتے ہیں اور بحالی کے بعد نئی آن بان کے ساتھ کھڑی ان عمارات کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیکسنی بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کا صوبہ تھا تاہم پولینڈ کی بادشاہت کے تاج کا حقدار ہونے کے لیے آؤگسٹ ڈیئر شٹارکے نے کیتھولک عقیدہ اپنا لیا تھا اور اِسی لیے اُنہوں نے 1739ء اور 1754ء کے درمیان یہ کیتھولک عبادت گاہ بنوائی۔
تصویر: picture alliance/Johanna Hoelzl
نئی آن بان کے ساتھ
فروری 1945ء میں تباہ ہونے والی لُوتھر کی یادگار کی مرمت اور تجدید کا کام کہیں 1955ء میں عمل میں آیا۔ اس مجسمے کی بحالی کا عمل 2003ء اور 2004ء میں انجام پایا۔ تب تک یہ مجسمہ جنگ اور تباہی کی ایک یادگار کے طور پر ’چرچ آف آور لیڈی‘ کے سامنے پڑا رہا۔ آج کل یہ مجسمہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور شہر بھر کے نوجوان بھی اسی کے سائے میں ایک دوسرے سے ملتے اور یہاں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
تصویر: imago/Chromorange
ایلبے کا فلورنس
آج کا ڈریسڈن ایک بار پھر جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے ایلبے اس کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی باروک طرزِ تعمیر کی حامل عمارات کی وجہ سے ڈریسڈن کو ’ایلبے کا فلورنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈریسڈن کی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں یہ جرمنی کے بارہ بڑے شہروں میں سے ایک گنا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Lander
2015ء میں 1945ء کی تباہی کا نظارہ
ڈریسڈن ہی میں مقیم ماہرِ تعمیرات یادگار عزیزی نے، جن کے والدین کا تعلق ایران سے ہے، گیس کی ایک بڑی سابقہ ٹینکی کے اندر دیواروں پر 1945ء کی تباہی کی تصاویر کچھ اس انداز سے آویزاں کی ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر انسان خود کو اُس سارے منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور انتہائی قریب سے دیکھتا ہے کہ کیسے ڈریسڈن شہر کا مرکز آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔