ایک دس سالہ جرمن بچے کا مشغلہ روغن میں محفوظ بچھوؤں کا جمع کرنا ہے۔ اپنے بچے کا شوق دیکھتے ہوئے اُس کی ماں نے انتہائی خطرناک صحرائی بچھو خرید لیا۔
اشتہار
خطرناک بچھو موصول ہونے پر یہ جرمن بچہ پہلے بہت خوش ہوا لیکن جب اُس کو زندہ پایا تو وہ انتہائی خوفزدہ ہو گیا۔ اس صورت حال پر اُس کی پریشان والدہ نے جانوروں کے ایک مرکز سے مدد طلب کر لی۔ ڈاک سے موصول ہونا والا بچھو انتہائی زہریلے بچھوؤں کی قسم Androctonus australis سے تعلق رکھتا تھا۔
انڈروکٹونس قسم کا بچھو ویسے تو یورپ میں دستیاب نہیں ہوتا لیکن خریدا جا سکتا ہے۔ یہ صحرائی بچھو ہے۔
یہ واقعہ جنوبی جرمن شہر میونخ کے نزدیک رونما ہوا ہے۔ رینگنے والے جانوروں کے مرکز کے اہلکاروں نے پہنچ کر صحرائی بچھو کے ڈبے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ زردی مائل اس بچھو کی نقل و حرکت بہت تیز ہوتی ہے۔
جلد سوکھ جانے والے روغن میں بچھوؤں کو جمع کرتے کرتے اس بچے کو محفوظ کردہ نمونوں میں مزید بچھو شامل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی تو اُس نے اپنی والدہ کے تعاون کو اہم خیال کیا۔ تاہم ہوا یہ کہ اُس کی والدہ نے انٹرنیٹ پر بغیر تفصیلات حاصل کیے صحرائی بچھو کو خرید لیا۔
بچھو حاثاتی طور پر خریدا گیا تھا اور انہیں اس کا بھی احساس نہیں ہوا کہ انٹرنیٹ پر جہاں سے بچھو خریدا گیا، وہ کمپنی زندہ بچھو فروخت کرتی ہے۔ بچھو بذریعہ ڈاک جب پہنچا تو بیرونی پیکنگ کھولنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ زندہ ہے۔
بچے کی والدہ نے فوری طور پر اُس کمپنی سے رابطہ کیا جنہوں نے یہ روانہ کیا تھا تو انہوں نے اسے واپس منگوانے کے بجائے یہ جواب دیا کہ اس بچھو کو الکوحل میں ڈال دیں یہ فوری طور پر مر جائے گا۔ اس جواب کے بعد ہی میونخ کے جانوروں کے مرکز سے رابطہ کیا گیا تھا۔
میونخ کے رینگنے والے جانوروں اور کیڑوں کے مرکز کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اندرونی پیکنگ نہیں کھولی گئی تھی وگرنہ ماں یا بچے میں سے کسی ایک کو یہ بچھو ڈنک مار سکتا تھا۔ اس صحرائی بچھو کے ڈنک سے متاثرہ شخص شدید درد میں مبتلا ہونے کے بعد فوری علاج نہ ملنے کی صورت میں مر بھی سکتا ہے۔ سینٹر کے مطابق صحرائی بچھو دنیا کے انتہائی تیز رفتار، جارحانہ اور زہریلے کیڑوں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ صحرائی بچھو عجائب اشیاء کی تجارت میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ممنوعہ اشیاء میں شمار نہیں ہوتا اور ایسی دوکانوں پر دستیاب ہوتا ہے جو زہریلی یا غیرمعمولی اور انوکھے کیڑوں کی فروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چیز ونٹر (عابد حسین)
دس زہریلے ترین جانور
دنیا میں زہریلے جانورں کی کمی نہیں۔ بہت سے زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج دریافت ہو چکا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے جانوروں کی بھی ہے، جن کا شکار ہونے پر انسان کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ دس زہریلے ترین جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: Imago/blickwinkel
پانی میں تیرتا ہوا خطرہ
اّسی سینٹی میٹر طویل یہ دریائی سانپ دنیا کے تقریباً تمام دریاؤں میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کا بظاہر دشمن کوئی نہیں۔ تاہم اس کے زہر کی تھوڑی سے مقدار بھی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم جارحانہ نہیں ہوتی اور یہ ساحلوں کے دور گہرے پانیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot/BCI/J. Visser
سی ویسپ یا باکس جیلی فش
آسٹریلیا کے پانیوں میں سی ویسپ جسے باکس جیلی فش بھی کہا جاتا ہے، بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ جیلی فش کی یہ قسم استوائی اور نیم مرطوب سمندرں میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کی چھتری نما ٹانگیں بیس سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ اس کا زہر دل، اعصبای نظام اور جلد کے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تصویر: AP
منڈارینا بِھڑ
منڈارینا بِھڑ کو دیو ہیکل ایشیئن بھڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے بڑے ڈنک والی بھڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کے بھنورے بھی کبھی کبھار اس کی غذا بنتے ہیں۔ اس کےتقریباً چھ سینٹی میٹر لمبے ڈنک کاٹنے کی صورت میں انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے زہر سے گوشت جھڑنا شروع ہو سکتا ہے جبکہ مزید بھڑیں بھی اس جانب متوجہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرخ پشت والی مکڑی
یہ زہریلی ترین مکڑی ہے اور کسی مکڑے سے زیادہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے زہر سے جسم میں شدید درد ہوتا ہے اور پٹھے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نظام تنفس تک پہنچنے کی صورت میں اس زہر سے موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مکڑی عام طور پر آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے تاہم اب جاپان میں بھی اس کے پائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Getty Images
ڈیتھ اسٹالکر یا زرد بچھو
زرد بچھو شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی وسطٰی میں پایا جاتا ہے۔ دس سینٹی میٹر طویل یہ کیڑا پتھروں والے خشک علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ پتھروں کے نیچے اور دیواروں میں پڑنے والی دڑاڑیں اس کا گھر ہیں۔ یہ انتہائی پھرتیلا اور زہر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا زہر اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تصویر: cc-by/Ester Inbar
گولڈن مینڈک
اس چھوٹی سی مخلوق کو دنیا کا زہریلا ترین مینڈک قرار دیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں کوکو انڈیانر نسل کے افراد اس مینڈک کا زہر شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
اصلی سنگ ماہی
استوائی اور نیم مرطوب سمندر اس مچھلی کا گھر ہیں۔ یہ بحیرہ احمر سے لے آسٹریلیا تک کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کے جسم پر موجود کانٹے نما کھال میں زہر موجود ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ان کانٹوں کو چھو لے تو شدید درد ہوتا ہے اور اچانک سانس بھی رک سکتی ہے۔
تصویر: Imago/oceans-image
بلیو رنگڈ اوکٹوپس (ہشت پا)
اکٹوپس کی یہ قسم بیس سینٹی میٹر طویل ہے۔ اس کی جلد پر موجود نیلے دائرے کسی خطرے کی صورت میں چمکنے لگتے ہیں۔ اس کا زہر بہت تیزی سے جسم میں سرائیت کرتا ہے، ذہن تو پوری طرح سے چاق و چوبند رہتا ہے لیکن جسم حرکت کے قابل نہیں رہتا۔
تصویر: imago/OceanPhoto
جیوگرافر کون (گھونگا)
یہ استوائی سمندروں میں پائی جانے والی گھونگے کی ایک قسم ہے۔ پندرہ سیٹی میٹر طویل یہ جانور اپنے جسم پر بننے نقش و نگار کی وجہ سے یہ بہت ہی قابل دید ہوتا ہے۔ تاہم اس کا حملہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے زہر کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA
زوان تھاریا (مرجان)
یہ سمندرکی تہہ میں پائی جانے والے جانور مرجان یا کورال کی ہی ایک قسم ہے۔ بظاہر پودا دکھائی دینے والی یہ مخلوق ایک جانور ہے۔ یہ تقریباً تمام ہی مچھلی گھروں میں موجود ہوتی ہے۔ یہ جانور بھی انتہائی زہریلا ہے اور اس کے کاٹے کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔