سابق مشرقی جرمنی میں بغاوت کا آغاز معیار زندگی کے خلاف ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں سے ہوا تھا۔ یہ مظاہرے جلد ہی سیاسی شکل اختیار کر گئے۔ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے مطالبات کے دوران سرکاری عمارات پر دھاوا بول دیا گیا۔
دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہڑتال پر چلے گئے اور 700 سے زیادہ شہروں میں احتجاج کیا گیاتصویر: AP/picture alliance
اشتہار
مشرقی جرمنی میں بدامنی کا فوری محرک کمیونسٹ حکومت کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ وہ فیکٹری ملازمین کے کام کے اوقات میں اضافہ کرے گی اور ساتھ ہی گروسری کی قیمتوں میں زبردست اضافے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔
بغاوت کی اصل وجہ سن 1950 کی دہائی کے اوائل میں مشرقی جرمنی کے کمیونسٹوں کی وہ پالیسی تھی، جس کا مقصد ''منصوبہ بندی کے تحت سوشلزم کو وسعت‘‘ دینا تھا۔ اس میں صنعتی پیمانے پر کاشتکاری کرنے اور ہیوی انڈسٹری کی تعمیر کو تیز کرنے کے لیے کھیتوں کو ضبط کرنے جیسے منصوبے شامل تھے۔
اسی طرح مشرقی جرمنی کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد عائد ہونے والے جرمانوں کی ادائیگیاں بھی کرنا تھیں اور ان سب عناصر نے مل کر جرمن معیشت میں افراتفری پھیلا دی تھی۔ جیسے جیسے کفایت شعاری کے اقدامات روزمرہ کا معمول بنتے گئے، ویسے ویسے ملک کے معاشی بحران میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور زیادہ سے زیادہ لوگ خوشحال زندگی کے لیے مغربی جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ سن 1953 کے موسم بہار تک ہر ماہ تقریباً 30 ہزار افراد مشرقی جرمنی چھوڑ رہے تھے۔
دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہڑتال پر چلے گئے اور 700 سے زیادہ شہروں میں احتجاج کیا گیاتصویر: akg-images/picture alliance
ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال
پھر ہڑتالوں کا آغاز ہوا۔ مئی کے آخری دنوں اور جون کے اوائل میں غیر مطمئن کارکنوں نے کام چھوڑ ہڑتالوں میں شرکت کرنا شروع کر دی۔ لیکن احتجاج کی پہلی زبردست لہر 16 جون کو شروع ہوئی، جب ہزاروں تعمیراتی کارکنوں نے اجرتوں میں کٹوتی کے خلاف برلن کے سٹالین آلے (آج کا کارل مارکس آلے) نامی مقام پر احتجاج کیا۔
اگلے دن دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہڑتال پر چلے گئے اور 700 سے زیادہ شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ جو بغاوت بہتر اجرت کے لیے شروع ہوئی، وہ جرمنی میں آزادی، جمہوریت اور اتحاد کے لیے ایک تحریک میں بدل گئی۔
کارکنوں اور مظاہرین نے حکومت سے زیادہ شفافیت، بہتر معیار زندگی، جی ڈی آر حکومت کے مستعفی ہونے، خفیہ رائے شماری کے ذریعے آزادانہ انتخابات اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد جیسے مطالبات کرنا شروع کر دیے۔
بدامنی کا مرکز مشرقی برلن میں پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال مزید بگڑتی گئی اور جی ڈی آر حکومت نے سوویت یونین سے براہ راست مدد مانگ لی۔ سوویت ٹینک مظاہرین کے غیر مسلح اجتماعات میں گھس گئے۔ فوجیوں نے فریڈرش سٹراسے اور پوسٹ ڈامر پلاٹس پر کارکنوں پر فائرنگ شروع کر دی، جس سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
سترہ جون کے بعد کے دنوں میں تقریباً 10ہزار مظاہرین اور ہڑتالی کمیٹی کے ارکان کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 15سو سے زائد مظاہرین کو طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
کریک ڈاؤن کے باوجود یہ بغاوت آنے والی دہائیوں تک خاموشی سے مشرقی جرمنی میں 1989 کے پرامن مظاہروں تک اُبلتی رہی۔ اس مرتبہ سوویت ٹینک سڑکوں سے دور رہے، ایک سال کے اندر ہی دیوار برلن گر گئی جبکہ مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ متحد ہو گئے۔
مصنفہ: سونیا فالنیکر
ترجمہ: امتیاز احمد / س ر
جرمن اتحاد کے 31 برس: برلن شہر کا ماضی اور حال
سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد تین اکتوبر 1990ء کو عمل میں آیا۔ دارالحکومت برلن منقسم جرمنی کی ایک علامت ہے۔ سردجنگ اور جرمن اتحاد کا منظر پیش کرتے اس شہر کے تاریخی مقامات کے ماضی اور حال کی چند تصویری جھلکیاں۔
برانڈن برگ گیٹ
یہ برلن کے مشہور ترین عوامی مقامات میں سے ایک ہے۔ برانڈن برگ گیٹ سن 1791 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ گیٹ سابقہ مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد کی نشاندہی بھی کرتا تھا۔ سن 1989ء کے موسم خزاں سے یہ گیٹ ایک رکاوٹ کے بجائے ایک نئے آغاز کی علامت بن چکا ہے۔
دیوار برلن
اٹھائیس سالوں تک اس دیوار نے برلن شہر کو منقسم رکھا۔ لگ بھگ 160 ساٹھ کلو میٹر کی اس سرحدی دیوار کے گرد سخت سکیورٹی نافذ تھی۔ متعدد افراد دیوار عبور کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہوگئے۔ ایسٹ سائڈ گیلری میں دیوار برلن کے زیادہ تر ٹکڑے جمع کیے گئے ہیں، جس پر قومی اور بین الاقوامی فنکار اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔
سن 1989 تک ہوہن شؤن ہاؤزن ریاستی سکیورٹی کی ایک مرکزی جیل تھی۔ اس حراستی مرکز میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا اور ان کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل کی اونچی دیواروں کی وجہ سے یہ ایک خفیہ مقام تھا اور یہ عمارت شہری نقشے میں شامل نہیں تھی۔ دوبارہ اتحاد کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ چند سالوں بعد اسے یادگار کے طور پر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
برلن میں لینن - فریڈرش شائن
سرخ گرینائٹ پتھر سے تعمیر کیا گیا لینن کا انیس میٹر اونچا دیو پیکر مجمسہ سن 1970 سے 1991ء تک فریڈرش شائن میں قائم تھا۔ اس مجمسہ کی نقاب کشائی کے موقع پر دو لاکھ افراد جمع ہوئے تھے۔ بیس برس بعد کمیونزم کے نظام کے خاتمےکے ساتھ ساتھ اس مجسمے کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ’لینن اسکوائر‘ اب ’اقوام متحدہ اسکوائر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ریپبلک پیلیس سے برلن محل تک
یہ محل جرمن ڈیموکریٹک ریبپلک (جی ڈی آر) کے اقتدار کا مرکز تھا۔ ریپبلک پیلیس آف برلن کا افتتاح سن 1976 میں کیا گیا تھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی متحدہ ریاست وجود میں آنے کے بعد سن 2006 سے 2008ء کے دوران اس محل کو مسمار کر دیا گیا۔ اب یہاں تاریخی برلن سٹی پیلیس کے ساتھ متنازعہ ہمبولٹ فورم تعمیر کیا گیا۔
جی ڈی آر کی انٹر شاپس
جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کی ایک ریٹیلر چین کا نام ’انٹر شاپ‘ تھا۔ اس شاپ میں جی ڈی آر کی کرنسی کے بجائے غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاسکتی تھی۔ اس وجہ سے جی ڈی آر کے شہری انٹر شاپس سے صرف خاص نوعیت کا سامان خریدتے تھے۔ یہ تصویر مشرقی برلن کے فریڈرش اشتراسے اسٹیشن کے پاس واقع انٹر شاپ کی ہے۔ آج یہ چوک متعدد دکانوں اور بوتیکس سے بھرا ہوا ہے۔
بچوں کے کھیل کے میدان
سابقہ مشرقی جرمنی کے ہر کھیل کے میدان میں یہ ’لوہے کے پنجرے نما گولے‘ موجود ہوتے تھے، جس پر بچے مل کر چڑھتے تھے۔ اب یہ جھولے رسی سے بندھے جال میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
تیرہ منزلہ ہوٹل
سن 1977 میں سابقہ مشرقی برلن کے علاقے فریڈرش اشتراسے پر تیرہ منزلہ انٹر ہوٹل میٹروپول کا افتتاح کیا گیا۔ کاروباری افراد، سفارت کار اور مشہور شخصیات اس ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ جی ڈی آر کے زیادہ تر شہری اس ہوٹل کا صرف باہر سے ہی نظارہ کرتے تھے۔ اب یہاں میریٹم ہوٹلز سلسلے کا ایک ہوٹل قائم ہے۔
مغرب کا شاپنگ سینٹر - کا ڈے وے
کاؤف ہاؤس دیس ویسٹینس یعنی مغرب کا شاپنگ سینٹر - جرمنی کا سب سے مشہور شاپنگ سینٹر ہے۔ 60 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر مشتمل یہ شاپنگ سینٹر سن 1907 میں کھولا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ سابقہ مغربی برلن میں واقع یہ شاپنگ سینٹر سیاحوں کے لیے ایک پر کشش مقام خیال کیا جاتا ہے۔