جرمنی میں تنقید نہ کیے جانے کا ایک مطلب تعریف کرنا ہی ہوتا ہے۔ جرمنی میں مقیم ایک امریکی مصنفہ کو بھی یہ بات سمجھ آئی، لیکن کچھ مشکلات جھیلنے کے بعد۔
اشتہار
جرمنی میں مقیم ایک امریکی مصنفہ کورٹنی ٹینز کو یہ بات سمجھنے میں وقت لگا۔ اب وہ ’جرمن طرز تعریف‘ کی قائل ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ’تصنع سے بھرپور امریکی طرز توصیف‘ بھی یاد آتا ہے۔ ایک مختلف ثقافت میں رہنے اور اسے سمجھنے کی کہانی سنتے ہیں کورٹنی کی زبانی۔
امریکا میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والی ایک لڑکی کے طور پر میرے لیے تعریف سننا روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔
اگر میں نے اچھے کپڑے پہنے ہیں تو گھر والے ہی یقینی طور پر تعریف کرتے ہوئے کہیں گے کہ میں کتنی اچھی لگ رہی ہوں۔ اسکول میں اچھے نمبر ملے تو سب کہیں گے میں کتنی ذہین ہوں اور اگر سالگرہ پر میں نے پورا کیک ہی ہڑپ کر لیا ہے تب بھی احباب میری خوش خوراکی کی تعریف کریں گے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اسکول میں بھی میں نے اپنی استانی کو ایک دن کہا، ’’ارے آج تو آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں، کیا بالوں کے ساتھ کچھ کیا ہے آپ نے؟‘‘ کئی دیگر ثقافتوں کی مانند امریکا میں بھی کسی کے لیے تعریفی کلمات کہنا ایک عمومی بات ہے۔
جرمن حقیقت پسندی اور ’کلچر شاک‘
ایک دہائی قبل جب میں جرمنی میں آئی تو پہلے برس مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ساتھ ہی کوئی مسئلہ ہے کیوں کہ نہ تو کسی نے میرے کپڑوں کی تعریف کی نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ بھئی آپ کے جوتے بڑے اچھے ہیں۔
جس اسکول میں میں پڑھا رہی تھی، وہاں بھی کسی طالب علم نے میرے طریقہٴ تدریس کی توصیف نہیں کی۔ اور تو اور بار میں بھی کسی نے میرے آنکھوں کی تعریف نہیں کی۔
اسکول میں مختلف ثقافتوں کے حوالے سے جاری گفتگو کے دوران ایک طالب علم نے کہا ’امریکی ہونے کے باوجود آپ دبلی پتلی ہیں‘ تو میں نے اسے بتایا کہ امریکا میں ایسی بات کو غیر مہذب سمجھا جائے گا۔ جواب میں جرمن طالب علموں کا کہنا تھا کہ سچائی تو تعریف کا بہترین انداز ہے اور ان کے لیے امریکی انداز میں تعریف کرنا سچائی سے دور اور مبالغہ آرائی کے برابر تھا۔
جرمن طرز زندگی کی پہچان
تمام جرمن تو نہیں مگر زیادہ تر لوگ کچھ سماجی عادتوں کے بارے میں بہت پر جوش اور جوشیلے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کو بھی کوئی ایسا جرمن ملے تو حیران نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بیئر
دنیا میں صرف چیک جمہوریہ کے لوگ ہی جرمنوں سے زیادہ بیئر پیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جرمن کو ہی بیئر اچھی لگتی ہے، مگر سماجی طور پر ایسا ہی مشہور ہے۔ اگر ایک بزرگ خاتون دوپہر کے وقت نصف لٹر بیئر پی رہی ہوں تو انہیں شرابی تصور نہیں کیا جائے گا۔ اور بیئر کے ایک جرمن شوقین کے پاس بوتل کھولنے والی چابی کے بغیر بوتل کھولنے کے کئی تخلیقی طریقے موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کاغذی کارروائی
کاغذوں کو ایک ساتھ رکھنے والا ’بائنڈر‘ جرمن ایجاد ہے اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جرمن باشندے ریکارڈ رکھنے کے کس قدر شوقین ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی انتہائی غیر منظم شخص بھی کسی سرکاری کام کے لیے ضروری کاغذ فوراﹰ ڈھونڈ لے گا۔ اصل میں جرمنی میں کاغذات کی ضرورت بھی آپ کے خیال سے بڑھ کر ہی پڑتی ہے۔ ڈیجیٹل ریکارڈز کے باوجود جرمن بیوروکریسی حیران کُن طور پر کاغذی ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Colourbox/M. Chab
سستے داموں خریداری
جرمنی ایک ایسا ملک ہے جہاں کم داموں پر اشیاء فروخت کرنے والے اسٹور اکثر معاشرے کے تمام طبقوں کے لیے سپر مارکیٹ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ بہترین قیمتوں پر اشیاء ضرورت کی خریداری کی تلاش میں رہتے ہیں، انہیں جرمن زبان میں ’شنَیپشن ژےگر‘‘ یعنی کم قیمتوں کے شکاریوں کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ اس قدر پختہ ہے کہ جرمنی میں ایڈورٹائزنگ کا ایک نعرہ ’گائز اِسٹ گائل‘ یعنی ’بچت سیکسی ہے‘ انتہائی مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
سیر و سیاحت
اگر آپ کسی سیاحتی مقام مثلاﹰ مشرق وُسطیٰ وغیرہ میں ایسے سیاحوں سے ملتے ہیں جو ہائیکنگ کے لیے جدید اشیاء سے لیس ہوں، تو بہت ممکن ہے کہ وہ درمیانی عمر کے جرمن ہی ہوں گے۔ سفر کے شوقین جرمن ہر جگہ آپ کو ملیں گے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر طے شدہ عادات کے حامل ہوں گے۔ جرمنوں کی ایک پسندیدہ سیاحتی منزل اسپین کے کیناری جزائر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’شریبر گارٹن‘، باغبانی کی کالونیاں
جرمنی میں چھوٹے چھوٹے باغوں پر مشتمل کالونیاں بہت معروف ہیں۔ ملک بھر میں 1.4 ملین ’شریبر گارٹن‘ موجود ہیں۔ یہ دراصل ایسی چھوٹی کالونیاں ہوتی ہیں، جن میں لوگ باغبانی کے لیے چھوٹے چھوٹے پلاٹ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ یہاں لوگ پھول اور پودے اگا سکتے ہیں، بار بی کیو کر سکتے ہیں اور ایسے باغیچوں کو اپنے ذاتی باغوں کی طرح سجا سکتے ہیں۔ تاہم یہ باغیچے کرائے پر لینے کے قوانین کافی سخت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
سڑکوں پر قوانین کا احترام
ایک بالغ شخص کے طور پر آپ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں کہ جب سڑک پر کوئی کار نہ ہو تو آپ ٹریفک کے سُرخ سگنل پر بھی سڑک پار کر لیں۔ لیکن جرمنی میں اگر آپ ایسا کریں تو حیران مت ہوں، جب کوئی چیخ کر آپ کو کہے کہ ’ابھی سگنل سُرخ ہے‘۔ عام طور پر سائیکل سوار، پیدل چلنے والے، کار ڈرائیور اور باقی تمام لوگ بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی سڑک پر موجود دیگر لوگوں کی تربیت کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
’شٹَم ٹِش‘
جرمن سماجی روایت ’شٹَم ٹِش‘ کا کوئی لغوی ترجمہ اگر ہو سکتا ہے، تو وہ ’گروہی میز‘ ہے۔ شٹَم ٹِش ابتدا میں پب یا کسی کلب میں صارفین کے لیے کسی میز کو مختص کرنے کو کہا جاتا تھا، جہاں وہ بیٹھ کر کارڈ گیمز کھیلتے یا گپ شپ اور بحث و مباحثے کرتے۔ یہ بحث تاہم زیادہ وسیع نہیں ہوتی تھی۔ شٹَم ٹِش اب مختلف گروپوں کی طرف سے باقاعدہ ملاقاتیں منظم کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
’ٹاٹ اَورٹ‘
ہر اتوار کی شام قریب 10 ملین جرمن، ٹیلی وژن پر ’ٹاٹ اَورٹ‘ نامی ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں۔ ٹاٹ اَورٹ کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’جائے وقوعہ‘۔ یہ سیریز 1970ء سے مسلسل جاری ہے۔ علاقائی پبلک براڈکاسٹر باری باری اس سیریز کی مختلف قسطیں تیار کرتے ہیں، لہٰذا مختلف جرائم کی تفتیش کا عمل ہر بار کسی الگ شہر میں دکھایا جاتا ہے۔ کئی پب بھی اس سیریز کو دکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ہر روز کیک
’کافے اُنڈ کُوخن‘ یعنی ’کافی اور کیک‘ نامی روایت کے تحت جرمن باشندے ہر سہ پہر کیک کھا سکتے ہیں۔ اب زیادہ تر اختتام ہفتہ پر ہی اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی سالگرہ ہے، تو پھر آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اپنے کام کی جگہ پر بھی کیک لے کر جائیں۔ بچے کبھی کبھی ناشتے کا آغاز بھی کیک سے ہی کرتے ہیں اور اسکول میں کھانے کے لیے بھی اپنے ساتھ کیک ہی لے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
9 تصاویر1 | 9
تعریف میں سچائی کی اہمیت کیا ہے؟
طالب علموں سے بحث کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ تعریف میں سچائی کا ہونا تو کوئی ضروری بات نہیں۔ کئی مرتبہ تعریف کا مقصد صرف حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔ جیسے دفتر میں حکام بالا کی تعریف تو بے معنی سہی، لیکن دیگر ملازموں کے کام کی 'غیر حقیقی تعریف‘ بھی ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔
اس کے علاوہ کبھی تعریفی کلمات اجنبیوں سے تعارف کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ یوں امریکی معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے تعریفی کلمات، چاہے حقیقی ہوں یا بناوٹی، لوگوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔
جرمن لوگ تعریف کیسے کرتے ہیں؟
دس برس جرمنی میں قیام کے بعد بھی اب تک میں یہ نہیں سمجھ پائی کہ جرمنوں کے لیے تعریف کا متبادل طریقہ کیا ہے۔ میرے ایک امریکی دوست کی رائے میں ’اگر تم پر تنقید نہیں کی جا رہی تو اسے تعریف ہی سمجھو‘۔ دوسرے الفاظ میں خاموشی ہی تعریف ہے۔
یہ طریقہ جرمن لوگ بچپن ہی سے اختیار کر لیتے ہیں۔ جرمن والدین پرورش کے لیے جس ماہر نفسیات کو بہت زیادہ پڑھتے ہیں، اس کا نام یسپر یہول ہے۔ اس ڈینش ماہر نفسیات کے مطابق بچوں کو صرف اپنے والدین سے تصدیق درکار ہوتی ہے۔ یہول لکھتے ہیں کہ بچے کو یہ مت کہو کہ اس نے کتنی عمدہ ڈرائنگ کی ہے بلکہ یہ تسلیم کریں کہ آپ کے ’ذہین بچے‘ نے ڈرائنگ بنا لی ہے اور پھر اس سے اس ڈرائنگ کے بارے میں سوالات کریں۔
اب ایک دہائی بعد آخرکار میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر میں خواہش کا اظہار بھی کروں تو بھی جرمنوں سے توصیفی کلمات کی توقع نہ رکھی جائے۔ بلکہ جب وہ تعریف بھی کریں گے تو وہ بھی ’کھرے‘ انداز میں ہو گی جیسا کہ گزشتہ دنوں میں بیوٹی سیلون سے باہر نکلی تو ایک نوجوان لڑکی نے 'جرمن تعریفی انداز‘ میں کہا، ’’سفید بال نہ دکھائی دینے کے سبب اب تم پہلے سے بہت بہتر دکھائی دے رہی ہو۔‘‘
ش ح / ع ح (کورٹنی ٹینز)
جرمن معاشرہ اور تختے کے کھیل
جرمن معاشرے اور بورڈ گیمز کا تعلق صدیوں پرانا ہے اور اس کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے۔ جرمنی میں ’کھیلوں کی ثقافت‘ پر تاریخی تناظر میں ایک نگاہ۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈائس، شیطانی علامت سے گھر گھر تک
ایک عرصے تک جرمنی میں ڈائس یا چھکے کو ’شیطانی‘ علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، تاہم اس کا استعمال قمار بازی وغیرہ میں چلتا رہا۔ اب ڈائس سے وابستہ کھیل جرمنی میں عام ہیں۔
تصویر: M. Schuppich
کھیلوں کی اہمیت
سن 1225 تا 1274 تھوماس اکوئناس نے بطور فلسفی اور مذہبی اسکالر کھیلوں کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ کھیل دماغی راحت کا باعث بنتے ہیں۔ ان کو یقین تھا کہ کھیل بنیادی انسانی ضرورت ہیں۔ انہوں نے چرچ سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کھیلوں سے جوڑے رکھا۔
تصویر: PD
کھیل پھر تنقید کی زد میں
فرانسِسکن راہب جان کاپیسترانو نے سن 1386 تا 1456 کھیلوں کو گناہ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے عوامی سطح پر کھیلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیورمبرگ میں 1452 میں تختے کے کھیل، ڈائس اور کارڈ گیمز متعارف کرائی گئیں تاہم کاپیسترانو نے اپنے خطبات میں ان کی سخت مخالفت کی۔
تصویر: LWL/Ansgar Hoffmann
فرانسیسی رنگ جرمنی میں
فرانسیسی رنگوں سے مزین حکم، چڑیا، اینٹ اور دل کے نشانات والے تاش کے پتے جرمنی میں استعمال ہونے لگے۔ اس سے قبل جرمن شہری تاش کے پتوں میں اینٹ کی جگہ گھنٹی، حکم کی جگہ پتا اور چڑیا کی بجائے بادام کی علامتیں استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
تاش کی تیاری ایک کاروباری شعبہ
15 ویں صدی میں کارڈز بنانے والوں کا کاروبار خوب عروج پر تھا۔ کارڈز کے ڈیزائن لکڑیوں میں کھود کر بعد میں ان سے چھپائی کا کام لیا جاتا تھا۔ 16 ویں اور 17 ویں صدی میں مخصوص جرمن پتوں کو فرانس تک میں پذیرائی حاصل تھی۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
اسکاٹ کھیل جرمنی کی ایجاد
4 ستمبر 1813 کو پہلی مرتبہ اسکاٹ کھیل کا آغاز ہوا۔ شاف کوپف، الٹنبرگ اور تھیورنگیا کے جرمن علاقوں میں یہ کھیل سب سے پہلے کھیلا جانے لگا۔ تاش کے اس کھیل کو ابتدا میں اسکاٹ الٹنبرگ کا نام دیا گیا۔ اب بھی اسکاٹ کی بین الاقوامی کمیٹی الٹنبرگ ہی میں قائم ہے۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
کھیلوں کے جھکاؤ کی جانب 19 ویں صدی بھی
19 صدی میں جرمنی میں کئی نئے کھیل متعارف کرائے گئے۔ ان میں سے کئی کھیل مختلف ناموں سے آج بھی کھیلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی پہلے سے موجود کھیلوں میں معمولی تبدیلی کر کے انہیں جرمنی میں کھیلا جانے لگا۔ ہندوستان میں کھیلا جانے والا لوڈو ایسا ہی ایک کھیل ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
بورڈ گیم، تعلیم کا ذریعہ بھی
بورڈ گیمز صرف تفریح کے لیے ہی نہیں ہوتیں بلکہ کھلاڑیوں کی معلومات میں اضافے کا بھی باعث بنتی ہیں۔ اس لیے تاریخ اور سفر کی معلومات سے آراستہ کھیل بھی متعارف کرائے گئے۔ 20 ویں صدی میں جرمن بورڈ گیمز کی برآمد کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔