جرمن تنظیم کی مدد سے پاکستان میں بجلی کی بڑی بچت
5 فروری 2014تاہم برقی سائنس کے شعبے سے وابستہ جرمن کمپنی اسپائر البتہ پاکستانیوں کی اس مشکل کو ایک انوکھے انداز سے سلجھانے کی جستجو میں مگن ہے۔
یہ بات شاید بہت سے لوگ جانتے ہوں کہ روایتی طور پر ایک کلو واٹ بجلی پیدا کرنے میں جتنی محنت اور سرمایہ لگتا ہے، اس سے انتہائی کم محنت اور سرمائے کی مدد سے کئی کلو وواٹ بجلی کی بچت کی جاسکتی ہے۔ اسپائر کے ماہرین اس نکتے کی محض ایک فلسفیانہ سوچ کے طور پر ہی تبلیغ نہیں کر رہے بلکہ وہ ایسا کر کے دکھا بھی رہے ہیں۔
گزشتہ قریب پانچ برسوں سے یہ کمپنی پاکستان میں پیداواری شعبے کے اندر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ رواں ماہ کراچی میں صنعتکاروں کے ہمراہ ایک ملاقات میں اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اسپائر کے رابطہء کار مارٹن شٹرائیلے نے بتایا کہ ایک برس کے عرصے میں اُن کے زیر انتظام پیداواری یونٹس میں 28 ہزار میگاواٹ توانائی کی بچت کی گئی ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قریب چار کروڑ پاکستانی روپوں کی اس سرمایہ کاری سے اوسط بنیادوں پر ایک فیکٹری میں ایک ارب روپے تک کی بچت ہوئی۔
اس منصوبے کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ توانائی کے بے جا استعمال، چوری اور لیکج کو روک کر فضاء میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں مارٹن نے بتایا کہ پاکستانی صنعتکار ان کے اس منصوبے سے بے حد خوش ہیں اور اس کا حصہ بننے میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں: ’’جب آپ پاکستانیوں کے ساتھ زیادہ قریب سے کام کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا بڑا ملک ہے یہاں کس قدر امکانات موجود ہیں اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس کو ترقی کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ بالخصوص حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور جرمنی کے مابین مختلف شعبہء جات میں بڑھتے ہوئے تعلقات کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسپائر کے اس منصوبے کو بھی جرمن حکومت مالی معاونت فراہم کر رہی ہے جبکہ پاکستان میں متعین جرمن سفارتکار یہاں کے معاشی ڈھانچے میں بہتری کے لیے متعدد بار اپنے ملک کی طرف سے تعاون کی یقین دہانیاں کروا چکے ہیں۔
اس وقت کراچی، فیصل آباد، لاہور اور دیگر شہروں کے پچاس سے زائد چھوٹے، بڑے اور درمیانے درجے کے پیداواری یونٹ اسپائر کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور نتائج سے بہت خوش ہیں۔
کراچی کے نامور تاجر سلیم پاریکھ کے بقول کچھ برس قبل جب اسپائر نے صنعتوں کے اندر توانائی کے زیاں کو روکنے کا منصوبہ پیش کیا تو بیشتر لوگوں نے اسے محض ایک وقتی امدادی منصوبہ سمجھ کر معمولی سے دلچسپی لی لیکن جرمن ماہرین کی مستقل مزاجی، انتہائی ذمہ دارانہ روش اور پیشہ ورانہ مہارت دیکھ کر صنعتکاروں کا اعتماد بڑھا: ’’ہم نے اور بھی بہت لوگوں سے مشاورت کی ہے لیکن ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا تجارتی مفاد کوئی نہیں، یہ بغیر کسی مالی فائدے اور نقصان کے یہ کام کر رہے ہیں کیونکہ انہیں جرمن حکومت تعاون فراہم کر رہی ہے۔ میری کمپنی کا گیس کا بل قریب ایک کروڑ روپے کا ہے، اس میں مجھے دس سے پندرہ فیصد واضح بچت ہوئی اور اس میں میری سرمایہ کاری ایک فیصد بھی نہیں تھی۔‘‘
توانائی کی بچت کے حوالے سے اسپائر کا طریقہء کار یہ ہے کہ ان کے ماہرین دلچسپی رکھنے والی کمپنی میں جاکر گیس اور بجلی کے استعمال کو انتہائی باریک بینی سے اور جدید آلات کی مدد سے جانچتے ہیں۔ ایک جامع رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور کمپنی مالکان کو نہ صرف اس پر عملدرآمد کی تجاویز دی جاتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ مسلسل رابطہ بھی رکھا جاتا ہے۔ تکنیکی معاونت جاری رکھنے کے علاوہ مالیاتی گوشوارے کی مانند توانائی کے استعمال کا بھی حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔
کراچی میں صنعتکاروں کے ساتھ دوران ملاقات مارٹن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے تانے بانے توانائی کے ذرائع کی کمی سے نہیں بلکہ اس کے غیر معیاری نظام تقسیم اور بے ہنگم انداز استعمال سے جُڑے ہوئے ہیں۔ مارٹن شٹرائیلے کے بقول: ’’پاکستان میں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی اور کوئلے وغیرہ سے اچھی خاصی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے، مسئلہ اس کی تقسیم اور استعمال کے حوالے سے ہے۔ فی الحال ہم استعمال کی جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ صنعتیں اس حوالے سے فعال ہوں اور توانائی کی بچت میں اپنا کردار نبھائیں۔‘‘
پاکستان میں حکومتی سطح پر اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور صنعتکاروں کی مختلف تنظیمیں اسپائر کا ساتھ دے رہی ہیں۔ جرمن ریاست باویریا میں قائم یہ تنظیم اب تک پاکستانی پنجاب کی 22 اور سندھ کی 33 کمپنیوں کو توانائی کے استعمال کی بابت کفایت شعاری کی ڈگر پر ڈال چکی ہے اور اس سلسلے کو مزید پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔