جرمن جامعات میں غیریورپی طلبا کے لیے ٹیوشن فیس پر تنقید
22 نومبر 2017
جرمنی کے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) کی صوبائی حکومت یورپی یونین کے باہر سے آنے والے طالب علموں کے لیے ٹیوشن فیس متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
اشتہار
این آر ڈبلیو کی صوبائی حکومت کے اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح اس صوبے کی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طالب علموں کی تعداد انتہائی کم ہو جانے کا خطرہ ہے۔ یورپ اور دنیا کے کئی دیگر ممالک کے برعکس جرمنی کے متعدد صوبوں میں یونیورسٹی سطح تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ ان صوبوں میں طالب علموں کو صرف اپنے ’ٹریول کارڈز‘ بنوانے کے لیے چھ ماہ پر مشتمل فی سمیسٹر تقریباﹰ تیس ہزار پاکستانی روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
کولون یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی سربراہ اِمکے آہلن کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’صوبے باڈن ورٹمبرگ میں ہم اس طرح کے ناکام منصوبے کا تجربہ کر چکے ہیں اور اب این آر ڈبلیو بھی اسی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس طرح کی بیوقوفیاں بند ہونی چاہییں۔‘‘
یہاں بیوقوفی سے مراد صوبائی خاتون وزیر برائے سائنس ایزابیل فائفر کی وہ تجویز ہے، جس کے مطابق یورپی یونین کے علاوہ تمام غیر ملکی اسٹوڈنٹس سے فی سمیسٹر ٹیوشن فیس وصول کی جائے گی۔ صوبائی وزیر برائے سائنس کے اس بیان کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس صوبے کی اتحادی جماعتوں میں یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ یونیورسٹیوں میں ٹیوشن فیس عائد نہیں کی جائے گی۔ تاہم اب اس خاتون وزیر کا ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’یورپی یونین کے باہر سے آنے والے اسٹوڈنٹس جرمن بنیادی ڈھانچہ استعمال کرتے ہوئے اچھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور بدلے میں انہیں ان اخراجات کا حصہ دار بننا ہو گا۔‘‘
اس منصوبے کا مقصد اس صوبے کی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے تاکہ یونیورسٹیوں کے حالات کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ رواں برس کے آغاز میں جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں شروع کیا گیا تھا۔ اس صوبے میں غیرملکی طالب علموں سے اب سالانہ تین ہزار یورو فیس وصول کی جاتی ہے۔ اگر بالکل ایسے ہی منصوبے کا آغاز این آر ڈبلیو میں ہوتا ہے تو صوبائی حکومت کو سالانہ دو سو ملین یورو کی آمدنی متوقع ہے۔ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اس وقت یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد سات لاکھ چالیس ہزار سے زائد ہے اور ان میں سے 67 ہزار سے زائد غیرملکی ہیں۔ یورپی یونین کے باہر سے آنے والے طلبا میں زیادہ تر تعداد ترکی، چین اور بھارت کے طالب علموں کی ہے۔
دوسری جانب اِمکے آہلن کا کہنا ہے کہ باڈن ورٹمبرگ کی طرح اس صوبے میں بھی غیر ملکی طالب علموں کی تعداد میں شدید کمی ہو جائے گی۔ ٹیوشن فیس متعارف کرانے کے بعد مختصر عرصے کے دوران ہی باڈن ورٹمبرگ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طالب علموں کی تعداد میں ایک تہائی کمی ہو گئی تھی۔
بلیو کارڈ: پیشہ ور افراد کے لیے یورپ کا دروازہ
بلیو کارڈ جرمنی اور یورپ میں قیام کا وہ اجازت نامہ ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں ملازمت اور رہائش کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
غیر ملکیوں کا آسان انضمام
بلیو کارڈ اسکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کے لیے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پورے یورپی یونین میں کہیں بھی
بلیو كارڈ کے حامل فرد کو ڈنمارک، آئر لینڈ اور برطانیہ کو چھوڑ کر یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس شخص نے یورپ سے باہر کسی ملک میں کالج کی تعلیم مکمل کی ہو اور اس کے پاس جرمنی کی کسی کمپنی کی طرف سے سالانہ کم از کم 48,400 یورو تنخواہ کی ملازمت کا كنٹریکٹ موجود ہو۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کے لیے سالانہ 37,725 یورو تنخواہ کا کنٹریکٹ بھی قابل قبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
خاص شعبوں میں زیادہ امکانات
جرمنی کے کئی علاقوں میں کچھ شعبوں کے ماہرین کی کافی کمی ہے جیسے کہ مكینیكل انجینئرز، ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی شعبوں میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق و ترقی کا کام کرنے والوں کی بھی کمی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء تک جرمنی میں قریب دو لاکھ چالیس ہزار انجینئرز کی ضرورت ہوگی۔ ان علاقوں میں تربیت یافتہ لوگوں کو بلیوكارڈ ملنا زیادہ آسان ہے۔
تصویر: Sergey Nivens - Fotolia.com
بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات
جرمن حکومت نے بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک ویب پورٹل بنا رکھا ہے http://www.make-it-in-germany.com ۔ یہاں آپ جرمنی سے متعلق تمام موضوعات پر معلومات مل سکتی ہیں۔
تصویر: make-it-in-germany.com
خاندان کی رہائش بھی ساتھ
صرف 2014ء میں ہی تقریباﹰ 12,000 لوگوں کو بلیو کارڈ دیا گیا۔ بلیو کارڈ ہولڈر اپنے کنبے کو بھی جرمنی لا سکتا ہے۔ اس کے لیے اُس کے اہلِ خانہ کی جرمن زبان سے واقفیت ہونے کی شرط بھی نہیں ہوتی۔ بلیو کارڈ ہولڈرز کے پارٹنر کو بھی کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Frank Leonhardt
سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے بھی بلیو کارڈ کا مطالبہ
روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے اب مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو بھی بلیو کارڈ کی سہولت دی جائے، جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں اور مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تشہیری مہم کی ضرورت
بعض جرمن ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ بلیو کارڈ کو دیگر ممالک میں متعارف کرانے کے لیے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی بھی ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 1250 سے زائد کمپنیوں نے کھلے عام یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔