جرمن جمہوریت میں انتقال اقتدار کا فن ’قابل فخر روایت‘
30 دسمبر 2021
جرمنی میں ہر چار سال بعد قومی انتخابات کے نتیجے میں انتقال اقتدار کا فن ’جمہوریت کی بہترین تشہیر‘ اور ایک ’قابل فخر روایت‘ ہے۔ یہ بات بنڈس ٹاگ کے رکن یوہان واڈےپُول نے ڈوئچے ویلے ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔
اشتہار
یوہان واڈےپُول ایک تجربہ کار قدامت پسند رکن پارلیمان ہیں، جن کا تعلق سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے ہے۔ انہوں نے جمعرات تیس دسمبر کو ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں قومی انتخابات کے بعد ہر بار جس طرح اقتدار پرانی حکومت سے نئی حکومت کو منتقل کیا جاتا ہے، اسے 'جمہوریت کی بہترین تشہیر‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔
اشتہار
امریکی جمہوریت کے لیے 'افسوس ناک واقعات‘
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کے رکن واڈےپُول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ عام انتخابات میں سی ڈی یو اور صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) دوسرے نمبر پر رہیں۔ اسی لیے آج ہم بنڈس ٹاگ میں اپوزیشن میں ہیں۔ لیکن جس طرح جرمنی میں ستمبر میں ہونے والے وفاقی الیکشن کے بعد دسمبر کے اوائل تک عبوری دور میں حکومتی معاملات چلائے گئے اور جس طرح گزشتہ سے موجودہ حکومت کو اقتدار منتقل ہوا، اس پر مجھے ذاتی طور پر بھی فخر ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ امریکا جیسے ملک میں بھی رواں برس کے آغاز پر انتقال اقتدار کےجمہوری عمل میں کس طرح کے افسوس ناک واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔‘‘
سن 1949 سے اب تک جرمنی کی قیادت کل آٹھ چانسلروں نے سنبھالی ہے۔ ان میں صرف انگیلامیرکل ہی خاتون ہیں۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ مختلف چانسلرز کی کیا خصوصیات تھیں۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
انگیلا میرکل، سی ڈی یو 2021-2005
انگیلا میرکل جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر ہیں۔ یہ سولہ سال تک جرمن چانسلر رہی ہیں۔ اس سال جرمنی میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی حکومت کے قیام تک میرکل ملک کی چانسلر رہیں گی۔
تصویر: Laurence Chaperon
گیرہارڈ شروئڈر، ایس پی ڈی 2005-1998
1998ء میں پہلی مرتبہ ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کا حکومتی اتحاد قائم ہوا۔ اس اتحاد نے ایس پی ڈی کے گیرہارڈ شروئڈر کو ملک کا چانسلر منتخب کیا۔ پہلی مرتبہ جرمن فوجی نیٹو اتحاد کے تحت بیرون ملک تعینات ہوئے۔ ان کا سماجی بہبود کا پروگرام ایجنڈا 2010 ان کی پارٹی کے استحکام پر سوالیہ نشان بن گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیلموٹ کوہل، سی ڈی یو 1998-1982
ہیلموٹ کوہل سولہ سال تک جرمن چانسلر رہے۔ ان کی قیادت کے انداز کو بہت محتاط تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کے دور اقتدار میں مغربی اور مشرقی جرمنی کا انضمام ہوا۔ انہوں نے سابقہ مشرقی جرمنی کی تعمیر نو کے لیے بھی اہم فیصلے کیے۔ کوہل نے یورپی اتحاد کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیلموٹ شمٹ، ایس پی ڈی 1982-1974
ولی برانٹ کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہونے پر ہیلموٹ شمٹ نے چانسلر کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں تیل کے بحران، مہنگائی اور معیشت کی سست روی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے انتہائی بائیں بازو کی شدت پسند تنظیم 'ریڈ آرمی فیکشن' کے خلاف انتہائی سخت موقف اپنایا۔ انہیں پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ولی برانٹ، ایس پی ڈی 1974-1969
احتجاجی مظاہروں کے باعث جرمنی کی سیاست تبدیل ہو گئی۔ سوشل ڈیموکریٹک جماعت کے ولی برانٹ اس سیاسی جماعت کے پہلے چانسلر بن گئے۔ انہوں نے وارسا میں ایک یادگار کے سامنے جب اپنے گھٹنے جھکائے تو اسے نازی جرمنی کی جانب سے معافی کے طور پر دیکھا گیا۔ انہیں سن 1971 میں مشرقی ممالک کے ساتھ تناؤ کم کرنے پر نوبل امن انعام بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرٹ گیورگ کیسنگر، سی ڈی یو 1969-1966
ان کے دور اقتدار میں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے مابین پہلا 'گرینڈ اتحاد' قائم ہوا۔ اس دور میں جرمنی کی معیشت تیزی سے گری۔ حکومت کی جانب سے ہنگامی قوانین کے نفاذ کے خلاف نوجوان سٹرکوں پر آنکلے۔ یہیں سے جرمنی میں طلبا کی ایک تحریک کا آغاز ہوا۔ نازی دور میں کیسنگر کے کردار پر کافی تنقید کی جاتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لڈوگ ایرہارڈ، سی ڈی یو 1966-1963
لڈوگ ایرہارڈ کو آڈے ناؤر کا جانشین منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے آڈے ناؤر کے دور میں بطور وزیر خارجہ کافی شہرت پائی تھی۔ انہوں نے سماجی اقتصادیات کو اپنایا اور مغربی جرمنی کی اقتصادی ترقی کے بانی کہلائے جانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کونراڈ آڈے ناؤر، سی ڈی یو 1963-1949
کونراڈ آڈے ناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر تھے۔ ان کی قیادت میں جرمنی ایک خودمختار ریاست بنا۔ ان کی خارجہ پالیسی کا رجحان مغرب کی طرف تھا۔ ان کی قیادت کے انداز کو آمرانہ بھی کہا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/Kurt Rohwedder
8 تصاویر1 | 8
اولاف شولس کی کامیابی کی وضاحت
یوہان واڈے پُول نے ڈی ڈبلیو ٹی وی کو بتایا کہ انگیلا میرکل کی قیادت میں گزشتہ حکومت ایک وسیع تر مخلوط حکومت تھی، جس میں موجودہ چانسلر اولاف شولس وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ کئی سال تک میرکل کابینہ میں سینیئر وزیر کے طور پر شامل رہنے کے بعد شولس اور میرکل کی سیاسی سوچ اور رویے ایک دوسرے کے کافی قریب آ گئے تھے، ’’اسی لیے ستمبر میں الیکشن کے نتیجے میں شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی سی ایس یو کی جگہ پارلیمان میں سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری اور پھر ایس پی ڈی گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر نئی وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
میرکل کی جماعت کی انتخابی ناکامی کا سبب
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رکن پارلیمان واڈےپُول نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ گزشتہ انتخابات میں جرمن عوام نے کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ وہ کسی ایسی شخصیت کو نئے وفاقی چانسلر کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جس کی سیاسی اور قائدانہ صلاحیتیں انگیلا میرکل سے ملتی جلتی ہوں۔
انہوں نے کہا، ''گزشتہ انتخابات میں جرمن ووٹروں کو سوشل ڈیموکریٹس اور کرسچن ڈیموکریٹس کے مابین جماعتی فرق کے باوجود اولاف شولس انگیلا میرکل کے طرز سیاست کے قریب تر نظر آئے، اسی لیے ایس پی ڈی کو فتح حاصل ہوئی اور شولس نئے جرمن چانسلر بن گئے۔‘‘
واڈےپُول کے مطابق، ''انگیلا میرکل نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ مزید ایک مرتبہ چانسلر نہیں بننا چاہتیں۔ لیکن میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو شکست اس لیے بھی ہوئی کہ ہماری پارٹی کے پاس کوئی ایسی لیڈرشپ یا پارٹی پروگرام ہی نہیں تھے، جن کی مدد سے سولہ سال تک اقتدار میں رہنے والی چانسلر انگیلا میرکل کی سیاست کے تسلسل کی ضمانت دے کر کرسچن ڈیموکریٹک یونین جرمن ووٹروں کو قائل کر پاتی۔‘‘