جرمن جہادی ٹین ایجر لڑکی موصل میں گرفتار، تصدیقی عمل شروع
عابد حسین
18 جولائی 2017
جرمن دفتر استغاثہ اُس رپورٹ کی تصدیق کر رہی ہے کہ ایک ٹین ایجر لڑکی کو موصل میں عراقی فوج نے حراست میں لیا ہے۔ ایک جرمن اخبار کے مطابق جرمن لڑکی گرفتار ہونے والی پانچ خواتین کے ہمراہ تھی۔
اشتہار
جرمنی کے معتبر اخبار ڈی ویلٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ موصل پر قبضہ کرنے والی عراقی فوج نے جب جہادیوں کے ایک ٹھکانے سے پانچ خواتین کو اپنی حراست میں لیا تو اُن میں ایک سولہ سالہ جرمن لڑکی بھی شامل ہے۔ اخبار نے لڑکی کا نام لِنڈا ڈبلیو بتایا ہے۔
جرمن وفاقی صوبے سیکسنی کے مستغیثِ اعلیٰ لورینز ہاسے کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ پر حکام نے اپنا تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے کہ آیا یہ لڑکی وہی ہے جس کی گمشدگی کی رپورٹ گزشتہ موسمِ گرما میں درج کرائی گئی تھی۔
یہ ٹین ایجر گزشتہ برس مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن کے قریبی قصبے پلِشنٹس میں لاپتہ ہوئی تھی۔ ریاستی حکام نے اس ٹین ایجر لڑکی کے رابطوں کی چھان بین شروع کر دی ہے اور اس عمل میں خاص طور پر اُس کے ممکنہ جہادی رابطوں کا کھوج لگانا مقصود ہے۔
جرمن وزارت خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراقی فوجی اور سفارتی حلقوں سے موصل میں ایک جہادی ٹھکانے سے گرفتار کی جانے والی پانچ خواتین کی شہریت کے حوالے سے معلومات طلب کی گئی ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق اگر ان میں کوئی جرمن شہریت یا پاسپورٹ کی حامل ہوئی تو اُسے قونصلر سروس کی فراہمی یقینی بنایا جائے گا۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
14 تصاویر1 | 14
ایک عراقی اہلکار نے اس ٹین ایجر لڑکی کے جرمن ہونے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ اس کے مطابق یہ لڑکی سلاوک نسل کی معلوم ہوتی ہے اور اُس کے روسی نژاد ہونے کا غالب امکان ہے۔ اس عراقی حکومتی اہلکار کے مطابق گرفتاری کے بعد لڑکی کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ اُس کا بدن کئی جگہوں سے جھلسا ہوا ہے۔ اہلکار کے مطابق جلد ہی اِس لڑکی کو اُس کے ملک کے سفارتخانے کے حوالے کر دیا جائے گا اور اُسے عراق میں قطعاً نہیں رکھا جائے گا ۔
عراقی فوج نے ابھی گزشتہ ہفتے کے دوران ہی موصل شہر کا قبضہ چھڑانے کا اعلان کیا تھا۔ قبضہ چھڑانے کا عسکری آپریشن گزشتہ برس سولہ اکتوبر کو شروع ہوا تھا