جرمن جیلوں میں قید خطرناک مذہبی انتہا پسند حکام کے لیے مشکل کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں انسداد دہشت گردی سے متعلق نئے تحقیقاتی سلسلوں کے آغاز کے سبب اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اشتہار
جرمنی کی ’فیڈریل کریمنل پولیس‘ BKA کے دفتر سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جرمن بھر کی مختلف جیلوں میں ایسے 150 مسلمان مذہبی انتہائی پسند قید ہیں جنہیں خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ میں شائع ہونے والے ان اعداد وشمار کے مطابق یہ افراد یا تو جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں یا پھر دہشت گردی سے جڑے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں۔
اخبار کے مطابق جیلوں میں قید ان افراد میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں شدت پسند اسلام کا ہمدرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ جرمن ریاست ہیسے کی وزیر انصاف ایوا کؤہنے ہیورمان کے مطابق، ’’آئندہ چند برسوں میں ہماری جیلوں میں شدت پسندی بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔‘‘
خاتون وزیر انصاف نے ایسی سینکڑوں تحقیقات کا بھی حوالہ دیا جو جرمنی بھر میں شدت پسند مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے عسکریت پسند بھی شامل ہیں جو مشرق وُسطیٰ سے لوٹے ہیں جہاں وہ دہشت گرد گروپ داعش کے لیے لڑتے رہے تھے۔
ہیسے کی وزیر انصاف ایوا کؤہنے ہیورمان کے مطابق جرمن جیلوں میں قید یہ شدت پسند جرمن حکومت کی طرف سے شدت پسندی کے خاتمے اور اس سے بچنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر جیلیں ان افراد میں شدت پسندی کے خاتمے اور انہیں جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے قابل بنانے میں ناکام رہیں تو اس بات کے خطرات موجود ہیں کہ ان کی رہائی کے بعد صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں جرمن حکام نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے 2017ء کے دوران اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تعداد میں دہشت گردی کے تناظر میں تحقیقات شروع کیں۔ ان میں سے قریب 1200 تفتیشی سلسلے دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث ہونے سے متعلق تھے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد مسلم مذہبی انتہا پسندی سے متعلق تھے۔
جرمن پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکوڈ کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کا ایک اسپیشل یونٹ اب ملکی دارالحکومت برلن میں بھی قائم کیا جائے گا۔ اس اسکواڈ کی تاریخ پر ایک نظر، ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
سخت حالات سے نمٹنے کی صلاحیت
جی ایس جی نائن یعنی بارڈر پروٹیکشن گروپ نائن کی داغ بیل سن انیس سو بہتر میں ڈالی گئی تھی جب عام جرمن پولیس میونخ اولپمکس کے موقع پر اسرائیلی مغویوں کو فلسطینی دہشت گردوں سے آزاد کرانے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Hannibal
عالمی سطح پر مضبوط ساکھ
اسپیشل پولیس اسکواڈ جی ایسی جی نائن نے اپنے پہلے آپریشن میں ہی کامیابی حاصل کر کے اپنی ساکھ بنا لی تھی۔ اس آپریشن کو ’آپریشن فائر میجک‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
مشن مکمل
اولرش ویگنر اس اسکواڈ کے بانی ممبران میں سے تھے۔ انہیں ایک فلسطینی دہشت گرد گروپ کے ہاتھوں موغادیشو میں ایک جہاز کے مسافروں کو رہا کرانے کے باعث ’ہیرو آف موغادیشو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ویگنر کو اس کامیاب مشن کے بعد جرمن حکومت کی جانب سے اُن کی کارکردگی پر اعزاز دیا گیا تھا۔
تصویر: imago/Sven Simon
جرمن اسپیشل کمانڈو سمندر میں بھی
یوں تو جی ایس جی نائن کا کام دہشت گردانہ کارروائیوں اور مغویوں کی رہائی کو اپنی مخصوص مہارت سے روکنا ہوتا ہے تاہم ضرورت پڑنے پر اسے سمندر میں کارروائيوں کے ليے روانہ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Hassenstein
زمین پر بھی مستعد
جرمن پولیس کے اس اسپیشل گروپ کے آپریشن عام طور پر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس پولیس فورس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک انیس سو آپریشن کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/U. Baumgarten
دن رات تربیت
جرمن اسپیشل کمانڈوز شب و روز سخت ٹریننگ سے گزرتے ہیں۔ اس تصویر میں کمانڈوز ایک ریلوے اسٹیشن پر دہشت گردوں سے نمٹنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔