جرمن جیلوں میں قیدیوں کے لیے جگہ تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی صوبوں میں عملے پر حملوں کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ایک اور مسئلہ شدت پسند مسلمان قیدیوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہے۔
اشتہار
جرمنی کے فنکے میڈیا گروپ کے ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے سولہ وفاقی صوبوں میں قائم انصاف کے محمکے کام کے لحاظ سے اپنی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ جرمنی کے متعدد صوبوں میں گزشتہ برس بھی یہ محکمے اپنے نوے فیصد وسائل استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنے وسائل کا پچاسی سے نوے فیصد تک حصہ استعمال کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس مزید کام کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔
اسی طرح جرمنی کے مختلف صوبوں میں جیلوں کے عملے پر ہونے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں گزشتہ برس اس نوعیت کے بہتر حملے کیے گئے جبکہ سن دو ہزار سولہ میں ایسے حملوں کی تعداد چونتیس تھی۔ لیکن صوبے باویریا میں ایسے حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ وہاں جیل کے عملے پر حملوں کی تعداد پینسٹھ سے کم ہو کر پچاس ہو گئی ہے۔
اسی طرح جرمن محکمہ انصاف ان شدت پسند مسلمانوں کے حوالے سے بھی پریشان ہے، جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے صوبے ہیسے میں سن دو ہزار تین کے بعد سے ایسے شدت پسند مسلمان قیدیوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح صوبے باویریا میں ایسے قیدیوں کی تعداد ننانوے ہے جبکہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شدت پسند قیدیوں کی تعداد چونتیس ہے۔ سن دو ہزار بارہ میں اس صوبے میں ایسے قیدیوں کی تعداد صرف چھ تھی۔
اسی طرح جرمن جیلوں میں ان قیدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں لیکن جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ جرمن صوبے تھیورنگیا کے وزیر انصاف اور سیاسی جماعت گرین پارٹی کے رکن ڈیٹر لاو اینگنر نے ’جرائم کا ازسر نو تنقیدی جائزہ‘ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس حوالے سے بات کی جانی چاہیے کہ آیا بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کی مختلف درجہ بندی کرنے سے جیلوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جرمنی کے مختلف سیاستدانوں نے جیلوں کی صورتحال میں فوری بہتری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیل خانہ جات کے نظام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
فلپائن: حد سے زیادہ بھری جیلیں: ایک ’جہنم‘ کی چند جھلکیاں
فلپائن میں صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے ملک میں منشیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جو مہم شروع کی ہے، اُس کی وجہ سے جیلوں میں اب تِل دھرنے کو جگہ باقی نہیں رہی۔ دارالحکومت منیلا کے قریب ’سِٹی جیل‘ کے ’ہولناک‘ مناظر۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
کھلے آسمان تلے قید
جن قیدیوں کو کوٹھڑیوں کے اندر جگہ نہیں ملتی، اُنہیں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا ہے۔ آج کل فلپائن میں بارشوں کا موسم ہے۔ ایک طرف انتہا کی گرمی ہے اور دوسری طرف تقریباً ہر روز بارش بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
سونے کا ’کئی منزلہ‘ اہتمام
ایسے میں وہ قیدی خوش قسمت ہیں، جن کے پاس اس طرح کا کوئی جھُولا ہے، جسے وہ بستر کی شکل دے سکتے ہیں۔ ساٹھ برس پہلے تعمیر کی جانے والی اس جیل میں صرف آٹھ سو قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن آج کل یہاں تین ہزار آٹھ سو قیدی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
ہو گا کوئی کمرہ، جہاں ’سانس لی جا سکتی ہو گی‘
اس جیل کا ہر کونا کھُدرا کسی نہ کسی کے قبضے میں ہے۔ زیادہ تر قیدی انتہائی پتلی چادروں پر یا پھر کنکریٹ کے ننگے فرش پر سونے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
طاقتور رہنا چاہیے
ایک قیدی ’ایکسرسائز روم‘ میں ورزش کرتے ہوئے اپنے پٹھے مضبوط بنا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
سخت قواعد و ضوابط
جگہ جگہ لگی تختیاں جیل کے قواعد و ضوابط کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ ہتھکڑیاں پہنے یہ قیدی اپنے مقدمات کی کارروائی کے منتظر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
صفائی ستھرائی کی ’سروس‘
ایک قیدی ٹائلٹ صاف کر رہا ہے جبکہ دوسرے قیدی کسی نہ کسی طرح اپنا وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
نہانے دھونے کا کمرہ
ان قیدیوں کو اپنے پسینے، بدبو اور غلاظت سے نجات حاصل کرنے کے مواقع کبھی کبھی ہی ملتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
ایک اور مشکل رات
ایک پہرے دار شام کو ایک گیٹ کو تالا لگا رہا ہے جبکہ سلاخوں کے پیچھے لیٹے ہوئے قیدی گنجائش سے کہیں زیادہ نفوس پر مشتمل اس جیل میں ایک اور رات گزارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
کوئی سمجھوتہ نہیں
ان ’غیر انسانی‘ حالات کے لیے نو منتخب صدر ڈوٹیرٹے کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے منشیات کے خلاف ایک ’بے رحمانہ‘ مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ منشیات کے عادی لوگوں کو مار ڈالیں، جس پر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں لوگوں کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ عدالتی نظام چھ لاکھ ڈیلرز اور نشئیوں کے خلاف مقدمات کے باعث دباؤ میں ہے۔