1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن جیلیں ٹرانس جینڈر قیدیوں کا کیا کرتی ہیں؟

19 اگست 2023

ماحولیاتی کارکن پینے لوپے فرانک جیل کا سامنا کر سکتی ہیں، تاہم انہیں مردوں کی جیل میں رکھے جانے کے خلاف ایک لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔

Deutschland Haftanstalt l Bayerische Abschiebehaftanstalt Eichstätt
تصویر: Peter Kneffel/dpa/picture alliance

جرمنی میں فرانک کا معاملہ جیل خانوں میں ٹرانس جینڈرز کو درپیش وسیع تر مسائل کا ایک اظہاریہ بھی ہے۔ پینے لوپے فرانک کا تعلق لاسٹ جنریشن گروپ سے ہے۔ انہوں نے سن 2022 میں بطور احتجاج برلن کے ہوائی اڈے کے ایک رن وے پر لیٹ کر فضائی ٹریفک کے لیے رخنہ پیدا کر دیا تھا۔

بھارت: خواجہ سراؤں کا پولیس فورس میں بھرتی کا مطالبہ

پاکستانی ٹرانسجینڈرز کی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف قانونی لڑائی

 اسی سلسلے میں اب وہ مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں اور اگر ان پر جرم ثابت ہو جاتا ہے، تو انہیں  قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ وہ خود کو خاتون قرار دیتی ہیں تاہم کاغذوں میں ان کی جنس مرد تحریر ہے، اسی لیے جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں مردوں کی جیل میں بھیجا جا سکتا تھا۔

تاہم جرمن جیلوں کے عملے کی یونین کی چیئرپرسن رینے میولر کے مطابق،''مردوں کی جیلیں ایسا ادارہ ہیں، جو ٹرانس افراد کے حوالے سے تیار نہیں ہیں۔ آپ کو ان کی حفاظت کے لیے ان پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ ہمارے پاس اسٹاف کی کمی ہے اور ایسے میں ہم ہر وقت یہ تحفظ ممکن نہیں بنا سکتے۔ ہم اصل میں جرمن وزارت برائے انصاف کی جانب سے تنہا چھوڑ دیے جانے کے احساس کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘

پینے لوپے فرانک ایسے میں ڈونیشنز جمع کر رہی ہیں تاکہ وہ جرمانہ ادا کر دیں اور جیل سے بچ جائیں۔

میولر کے مطابق جرمن قیدخانوں میں اس وقت ساٹھ ہزار افراد قید ہیں، جن میں باقاعدہ قیدی، حفاظتی تحویل اور مقدمے سے قبل زیرحراست افراد شامل ہیں۔ جرمنی میں قریب دو سو حراستی مقامات ہیں اور تمام جیلوں میں عملے کی کمی کا مسئلہ ہے۔ میولر کے مطابق اس وقت قریب دو ہزار اہلکاروں کی قلت ہے۔

پاکستان میں تبدیلی جنس پر پابندی، ٹرانس برادری سراپا احتجاج

05:00

This browser does not support the video element.

جرمنی میں قیدخانے صوبوں کی نگرانی میں آتے ہیں۔ کچھ مقامات پر ٹرانس افراد کے حوالے سے خصوصی ضوابط متعارف کروا کر ان کے لیے علیحدہ حصے مختص کیے جا چکے ہیں یا جہاں تربیت یافتہ عملہ تعینات ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلینج ہے کیوں کہ مردوں اور خواتیں کو جیلوں میں علیحدہ رکھنے کے اصول کے تحت ٹرانس جینڈر سے متعلق ضوابط طے کرنا آسان نہیں۔

جرمنی میں چالیس برس قبل کا ٹرانس جینڈر قانون جنسی شناخت کی تبدیلی کے لیے کسی شخص کو طبی معائنے سے گزرنے کا کہتا تھا، تاہم یہ قانون غیرآئینی قرار دیا جا چکا ہے۔ جرمنی کی وفاقی حکومت جلد ہی شہریوں کو اپنی شناخت کے تعین کا حق دینے سے متعلق ایک قانون کی منظوری دینے والی ہے۔

رینے میولر کے مطابقٹرانس جینڈرز کو جیلوں میں درپیش ایسے صنفی مسائل کا بہترین حل ان کے لیے علیحدہ حراستی مقامات کا قیام ہے۔

(اولیور پیپر) ع ت، ش ر

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں