جرمن حکام اپنے وطن لوٹنے والے مہاجرین کا ریکارڈ بھی رکھیں گے
شمشیر حیدر12 ستمبر 2016
جرمن ادارے اب تسلیم شدہ مہاجرین کی سفری معلومات کا تبادلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئندہ جرمنی میں موجود تسلیم شدہ مہاجرین اپنے وطن کا سفر کریں گے تو اس کا ریکارڈ بی اے ایم ایف سمیت متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہو گا۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کی خاتون ترجمان نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اب تک یہ وفاقی ادارہ تسلیم شدہ مہاجرین سے متعلق سفری معلومات کے بارے میں اعداد و شمار جمع نہیں کر رہا تھا۔ قبل ازیں تسلیم شدہ مہاجرین کے ان کے آبائی وطنوں کی جانب سفر کے بارے میں معلومات صرف غیر ملکیوں کے امور سے متعلق جرمن بلدیاتی دفاتر (Ausländerbehörden) اور بعض انفرادی کیسوں میں وفاقی جرمن پولیس کے پاس ہوتی تھیں۔ یہ ادارے بعد ازاں ان معلومات کا تبادلہ بی اے ایم ایف کے ساتھ کرتے تھے۔
گزشتہ دنوں جرمن اخبار ’وَیلٹ اَم زَونٹاگ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ کچھ تسلیم شدہ مہاجرین واپس اپنے آبائی وطنوں کی جانب چلے گئے تھے لیکن جرمن دفتر روزگار کو اس بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔ برلن میں قائم وفاقی دفتر روزگار کو بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ مہاجرین ملک میں موجود نہ ہونے کے باوجود حکومت سے بے روزگار افراد کے لیے ماہانہ سماجی امداد یا Hartz-IV نامی الاؤنس وصول کر رہے تھے۔
[No title]
سماجی مالی امداد وصول کرنے والے جرمن شہریوں اور مہاجرین کو ملک سے باہر جانے کے لیے چھٹی لینا ہوتی ہے اور اس دورانیے میں انہیں ماہانہ امدادی رقم ادا نہیں کی جاتی۔ جرمن اداروں کے مابین معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کے باعث یہ مہاجرین ملک میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت سے رقوم وصول کر رہے تھے۔
بی اے ایم ایف کی ترجمان کا کہنا تھا، ’’بی اے ایم ایف، غیر ملکیوں سے متعلق دفاتر اور دفتر روزگار کے مابین ایسی معلومات کے تبادلے کا نظام موجود نہیں تھا لیکن اب فوری طور پر یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔‘‘
مہاجرین کی جانب سے اپنے آبائی وطنوں کی جانب سفر کے بارے میں اطلاع فراہم نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو جرمنی میں سیاسی پناہ اس بنیاد پر دی جاتی ہے کہ ان کے اپنے آبائی وطنوں میں ان مہاجرین کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ اگر جرمن اداروں کو علم ہو جائے کہ کسی مہاجر نے اپنے وطن کی جانب سفر کیا ہے، تو ایسی صورت میں ان کا سیاسی پناہ کا حق ختم کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے مہاجرت اور ترک وطن کی خاتون ترجمان کا تاہم کہنا تھا کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر، مثال کے طور پر اگر کسی مہاجر کا کوئی قریبی رشتہ دار انتہائی بیمار ہو، واپس آبائی وطن جایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا، ’’محض سیر کے لیے آبائی وطن کی جانب سفر اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ مہاجر کو اپنے ملک میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ ایسی صورت میں ان مہاجرین کے لیے جرمنی میں سیاسی پناہ کا حق ختم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘