جرمن حکومت جنسی زیادتی کے قانون کو سخت بنانے پر متفق
17 مارچ 2016جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ نے ’ریپ لا‘ کو مزید سخت بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ اب ایسے کیسوں کا بھی احاطہ کیا جائے، جن میں زیادتی کا شکار بننے والی خواتین بے شک جسمانی طور پر کسی وجہ سے مزاحمت نہ کر پائی ہوں لیکن یہ عمل ان کی رضا مندی کے بغیر ہوا ہو۔
سال نو کے موقع پر جرمن شہر کولون میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد جرمن حکومت پر دباؤ بڑھ گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرے۔
یہی واقعات جنسی زیادتی کے حوالے سے جرمنی کے موجودہ قانون میں تبدیلی کی وجہ قرار دیے جا رہے ہیں۔
وفاقی جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے مجوزہ قانون کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ قانون میں جنسی جبر اور حملوں کے حوالے سے ’ناقابل قبول خامیاں‘ ہیں۔
ہائیکو ماس نے واضح کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان خامیوں کو دور کیا جائے۔
جرمنی کے موجودہ قانون کے تحت متاثرین جب پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں تو انہیں نہ صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے حملہ آور کے خلاف نہ صرف زبانی بلکہ جسمانی طور پر بھی مزاحمت ظاہر کی تھی۔
نئے قانون کے تحت اب ایسے کیسوں پر بھی قانونی کارروائی قابل جواز ہو جائے گی، جن میں کوئی بھی مرد اپنی پارٹنر کسی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا ہو۔
اس مجوزہ قانون میں یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ ان آجرین یا ان کے نمائندوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی، جو نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے اسٹاف کی رکن کسی خاتون کو جنسی تعلق پر مجبور کریں گے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمنی میں سالانہ بنیادوں پر جنسی زیادتی کے اوسطاﹰ آٹھ ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں، جن میں سے صرف دس فیصد پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی ہر دسویں واقعے میں ملزم عدالتی سطح پر سزا پاتا ہے۔