جرمن حکومت جوہری کمپنیوں کو ہرجانہ ادا کرنے پر رضامند
5 مارچ 2021
جرمن حکومت برسوں سے چلتی ہوئی عدالتی کارروائی کو ختم کرتے ہوئے توانائی کمپنیوں کو دو اعشارہ چار بلین یورو فراہم کرنے پر رضا مند ہو گئی ہے۔ جوہری توانائی گھروں کو ختم کرنے کی وجہ سے ان کمپنیوں کو نقصان ہو رہا ہے۔
اشتہار
جمعے کے دن جرمن حکومت نے تصدیق کر دی کہ وہ ایسی کمپنیوں کو ہرجانہ ادا کرے گی، جو جوہری توانائی گھروں کو مرحلہ وار ختم کرنے کی وجہ سے مالی نقصان کا شکار ہو رہی ہیں۔ یوں حکومت اور ان کمپنیوں کے مابین گزشتہ کئی برسوں سے جاری عدالتی جنگ ختم ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
جرمن میڈیا کے مطابق نقصان کا شکار ہونے والی کمپنیوں کے لیے دو اعشاریہ چار بلین یورو (دو اعشاریہ نو بلین ڈالر) کی رقوم مختص کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
مارچ سن دو ہزار انیس میں جاپان میں فوکو شیما جوہری حادثے کے بعد جرمن حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں جوہری طاقت گھروں کو مرحلہ وار بند کر دے گی۔
یہ فیصلہ حکومت کو توانائی کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی تجدید کے کچھ ماہ بعد ہی کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ناقدین نے انگیلا میرکل کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کی حکومت نے یوٹرن لیا ہے۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Imago/China Foto Press
9 تصاویر1 | 9
تاہم میرکل کا کہنا تھا کہ فوکو شیما جوہری حادثے کے بعد صورتحال بدل گئی تھی، جس کی وجہ سے پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔
جرمن حکومت نے جوہری کمپنیوں کے ساتھ یہ تصفیہ اس لیے کیا تھا تا کہ ان کمپنیوں کی طرف سے کی گئی سرمایا کاری کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
حکومتی بیان کے مطابق جوہری انرجی فراہم کرنے والی کمپنیوں آر ڈبلیو ای، فاٹن فال، ایئون۔ پرسیون الیکٹرا اور اینب کو دی جائیں گی۔ یہ بیان وزرات ماحولیات، خزانہ اور اقتصادیات کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کیا گیا ہے۔
اس میں ایک اعشاریہ چار بلین فاٹن فال کو جائیں گے، آٹھ سو اسی ملین آر ڈبلیو ای کو جبکہ باقی کمپنیوں کو فی کس بیالیس اعشاریہ پانچ ملین یورو دیے جائیں گے۔
جرمن حکومت کے منصوبے کے مطابق ملک کا آخری فعال جوہری گھر بھی آئندہ برس کے اواخر تک بند کر دیا جائے۔ انگیلا میرکل کی اس پالیسی کو بالخصوص ماحول دوست شہریوں نے سراہا ہے جبکہ ملک کی سیاسی پارٹی گرین نے اس کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔