جرمن حکومت کا تحفظ ماحول کے لیے 40 ارب یورو کا خصوصی پیکج
15 ستمبر 2019
چانسلر میرکل کی حکومت جمعہ بیس ستمبر کو ماحول کے بہتر تحفظ کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس مناسبت سے تیرہ ستمبر کو جرمن کابینہ نے کلائمیٹ چینج سے متعلق ایک خصوصی اجلاس میں غور بھی کیا۔
تصویر: Stefan Ziese/imagebroker/picture-alliance
اشتہار
جرمن حکومت بیس ستمبر کو ایک ایسے پیکج کا اعلان کرنے والی ہے، جس میں ماحول کو نقصان پہنچانے والی سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں پچپن فیصد کمی کے ایک جامع پلان پر عمل کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔ یہ کمی سن 1990 کی شرح کے تناظر میں سن 2030 تک لائی جائے گی۔ اس خصوصی پیکج پر چانسلر میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں نے اتفاق کر لیا ہے۔
جرمن جریدے 'ویلٹ اَم زونٹاگ‘ نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ میرکل حکومت کم از کم 40 بلین یورو اگلے چار برسوں میں مختلف خصوصی منصوبوں پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس جرمن جریدے کو حکومتی ذرائع سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ خطیر رقم کن منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔
جرمن حکومت بجلی سے چلنے والی کاروں کی خرید اور فروخت پر خصوصی رعایت دینے کا ارادہ رکھتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ نے جمعہ تیرہ ستمبر کو اپنے ایک خصوصی اجلاس میں سن 2030 تک کے لیے ماحولیاتی اہداف کا تعین ضرور کیا لیکن تفصیلات اگلے جمعے کو عام کی جائیں گی۔ اس اجلاس میں میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی قریبی حلیف پارٹی کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ ساتھ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) بھی شامل ہوئی۔
اس اجلاس میں جرمن وزیر ٹرانسپورٹ نے ملکی ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو تقویت دینے کے ليے اربوں یورو کے منصوبے بھی پیش کیے۔ ان خصوصی منصوبوں کی تفصیلات بھی بیس ستمبر کو ہی سامنے لائی جائیں گی۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی سن 2020 تک کے لیے مقرر کردہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں یقینی طور پر ناکام رہے گا۔
اجلاس میں حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کا متفقہ موقف تھا کہ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں سے ملکی کاروباری حلقوں کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس تناظر میں واضح کیا کہ حکومتی پالیسی میں چھوٹے کاروباری اداروں کو تحفظ دینا بھی بہت ضروری ہے۔
'ويلٹ اَم زونٹاگ‘ کی رپورٹ کے مطابق چانسلر میرکل کی تجویز ہے کہ حد سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنے والے کاروباری اداروں پر ایک مخصوص ٹیکس نافذ کیا جائے۔ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ زیادہ کاربن گیسوں کے اخرج پر کارخانہ داروں کو کتنا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
جرمن حکومت بجلی سے چلنے والی کاروں کی خرید اور فروخت پر خصوصی رعایت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں ایسی کاروں کو چارج کرنے کے اسٹیشنوں کے نیٹ ورک کو وسعت دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسی موٹر گاڑیوں پر اضافی ٹیکس لگانے کا بھی قوی امکان ہے جو فضا میں دھواں زیادہ چھوڑتی ہیں۔ برلن حکومت فضائی سفر پر 'گرین سرچارج‘ لگانے کی سوچ بھی رکھتی ہے۔
ع ح ، م م ⁄ اے پی، روئٹرز
جرمن زرعی شعبے کو درپیش مشکلات
جرمن کسان ملکی منڈی میں اپنی مصنوعات کی کم قیمت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کسانوں کو ماحول اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقید بھی سننا پڑتی ہے۔ جرمنی میں زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze
دودھ کی وافر پیداوار لیکن خریدار کم
یورپی یونین کی جانب سے دودھ کا کوٹہ ختم کیے جانے کے بعد سے دودھ کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے۔ گوالے نئی منڈیوں تک رسائی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ روس کے خلاف عائد پابندیاں اور چینی معیشت میں سست روی ان کے خواب پورا نہیں ہونے دے رہے۔ آج کل دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی رسد ان کی طلب سے زیادہ ہے۔ ااس صورتحال میں یورپی یونین کو گوالوں کی مالی مدد کرنا پڑ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
وجود کو خطرہ
جرمنی میں کسانوں کی تنظیم ’ ڈی بی وی‘ کے صدر یوآخم رکوائڈ کے مطابق زرعی شعبے کا ایک بڑا حصہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ کہتے ہیں 2003ء سے 2013ء کے دوران جرمنی میں مختلف فارموں یا کھیتوں میں 32 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرنے والے کسان اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ایک اہم آجر
جرمنی میں زرعی شعبے سے کوئی چھ لاکھ افراد منسلک ہیں۔ کسانوں کی تنظیم ’ڈی بی وی‘ کے مطابق یہ جرمنی کا ایک بہت اہم آجر شعبہ ہے۔ اس سلسلے میں رواں برس ہینوور میں ہونے والے کسانوں کے ملکی کنوینشن کا موٹو ہے، ’’مضبوط زراعت، اچھے مستقبل کی ضمانت۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
تصورات اور خیالات
سر سبز مرغزار، ان میں گھومتے ہوئے صحت مند مویشی اور دلکش کھیت۔ کسی بھی شخص سے اگر کھیتی باڑی کی بات کی جائے تو اس کے ذہن میں کچھ ایسی ہی تصویر بنتی ہے۔ 2013ء میں کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق 80 فیصد جرمن شہری ملکی زراعت کو جرمنی اور جرمن روایات کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
زرعی شعبے میں کئی حقائق عمومی تصورات سے مختلف ہیں۔ مثلاﹰ آج کل زرعی شعبے میں بھی صنعتی پیمانے پر مصنوعات کی پیداوار دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کے بے پناہ استعمال کی وجہ سےبھی عام کسانوں کی پیداواری مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters
کھیتی باڑی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی
تحفظ ماحول کی تنظیموں کے مطابق کھیتی باڑی بھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ زمین کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل سے’لافنگ گیس‘ پیدا ہوتی ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی 300 گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں 43 لاکھ دودھ دینے والی گائیں میتھین گیس خارج کرتی ہیں۔ 2014ء میں جرمنی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی دوسری سب سے بڑی وجہ ملکی زرعی شعبہ تھا۔
تصویر: picture alliance/F. May
گوشت کی مانگ میں اضافہ
جرمنی کو یورپ کا مذبحہ خانہ کہا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 30 ملین سؤر، 1.7 ملین گائیں اور 325 ملین مرغیاں گوشت کے لیے استعمال کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ چھپ کر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ پھر اس خدشے کے پیش نظر کہ جانور کہیں ایک دوسرے کو زخمی نہ کر دیں، خنزیروں اور گائیوں کی دمیں کاٹ دی جاتی ہیں جبکہ مرغیوں کے چوزوں کی چونچیں بھی آگے سے تراش دی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
یورپی یونین کی جانب سے اعانت
ابھی کچھ سال پہلے تک یورپی یونین کی جانب سے زرعی شعبے کے کارکنوں اور اداروں کو دی جانے والی مالی اعانتیں بےضبط انداز میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر جتنا بڑا کھیت یا فارم ہو گا،اتنی ہی زیادہ رقم ملے گی۔ اس پالیسی کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
پالیسی میں تبدیلی
2014ء میں یورپی یونین نے اپنی زرعی پالیسی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ اب مالی اعانت کے حق دار صرف ماحول دوست کاشتکار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح عام کسانوں نے کھیتی باڑی کے دوران کیمیائی مادوں کا استعمال کم کر دیا ہے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
بائیو مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ
جرمنی میں گزشتہ دہائی کے دوران بائیو یا تحفظ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے کی جانے والی کاشتکاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بائیو فارمز کی تعداد ان دس سالوں میں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی بڑھی ہے۔ جرمنی میں کل زرعی رقبے کا چھ فیصد حصہ بائیو فارمنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ آسٹریا میں یہ شرح بیس فیصد ہے۔