جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسی بی این ڈی نے کئی برسوں تک انٹرنیشنل پولیس آرگنائزیشن انٹرپول کی جاسوسی کی ہے۔ جانیے کہ اس کے علاوہ جرمنی کی یہ خفیہ ایجنسی کن اداروں کی جاسوسی میں ملوث رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
اشتہار
مشہور میگزین ’ڈئیر اشپیگل‘ نے ہفتے کے روز کچھ دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی این ڈی بین الاقوامی پولیس آرگنائزیشن انٹرپول کی کئی سال تک جاسوسی کرتی رہی ہے۔
اس تازہ انکشاف کے مطابق اس خفیہ ایجنسی کی طرف سے فرانس میں انٹرپول کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ اس پولیس کے آسٹریا، ڈنمارک، یونان، امریکا اور درجنوں دوسرے ملکوں میں موجود دفاتر کی بھی نگرانی کی گئی۔
جرمن میگزین کے مطابق اس خفیہ ادارے کی طرف سے نگرانی کا یہ عمل سن 2000 سے جاری تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے نگرانی کی ایک فہرست مرتب کر رکھی تھی، جس میں انٹرپول پولیس کے تفتیش کاروں کے ای میل ایڈریس، فون اور فیکس نمبر تک درج کیے گئے تھے۔
نہ صرف انٹرپول بلکہ بی این ڈی کی طرف سے دی ہیگ میں یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ’یورو پول‘ کا ڈیٹا بھی ریکارڈ کیا گیا۔ جرمنی میں گرین پارٹی کے رکن پارلیمان قانون ساز کونسٹانٹین فان نوٹس نے ملکی ایجنسی کی طرف سے پولیس اہلکاروں کی جاسوسی کو ’قابل شرم‘ قرار دیا ہے۔
فان نوٹس کا تنقید کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تمام معلومات صحافیوں کے یا پھر ایڈروڈ سنوڈن جیسے لوگوں کی طرف سے سامنے آ رہی ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ’پارلیمانی کنٹرول غیر موثر‘ ثابت ہو چکا ہے۔
رواں برس جنوری میں ہی اس میگزین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جرمنی کی یہ خفیہ ایجنسی سن 1999 کے بعد سے دنیا کے کئی ممالک کے صحافیوں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ جن صحافیوں کی جاسوسی کی جاتی رہی ہے، ان میں کئی دیگر نیوز آرگنائزیشن کے ساتھ ساتھ بی بی سی اور نیویارک ٹائمز کے صحافی بھی شامل تھے۔
گزشتہ برس جرمن کابینہ نے ملکی خفیہ ایجنسی’ بی این ڈی‘ میں اصلاحات کے لیے ایک قانونی مسودے کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد’ فیڈرل انفارمیشن سروس‘ سے متعلق قوانین کو سخت بنایا جانا تھا۔
گزشتہ برس حکومت کی جانب سے یہ اقدام ان خبروں کی تناظر میں اٹھایا گیا تھا، جن کے مطابق یہ ادارہ اپنے ساتھیوں اور بین الاقوامی اداروں کی جاسوسی کرتا رہا ہے اور اسے قومی سلامتی کے امریکی ادارے ’ این ایس اے‘ کا قریبی تعاون بھی حاصل تھا۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔