جرمن خفیہ ایجنسی بھی امریکی سکیورٹی ایجنسی کے نقشِ قدم پر
11 نومبر 2015جرمن خفیہ ادارے بی این ڈی (BND) کے بارے میں رپورٹ دارالحکومت برلن کے ایک پبلک ریڈیو (RBB) پر نشر کی گئی۔ اِس رپورٹ کے مطابق جرمن خفیہ ادارہ مختلف منتخب افراد کے ٹیلی فون نمبروں کی چھان بین کے ساتھ ساتھ ای میلز اور اُن کے مختلف رابطوں کی پڑتال میں ملوث رہا ہے۔ نئی تفصیلات کے مطابق جرمن خفیہ ادارے کے ایجنٹوں نے فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فابیوس، دی ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت، جنیوا میں واقع عالمی ادارہ صحت اور بچوں کی بہبود کے لیے وقف اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی خفیہ نگرانی کی ہے۔
آر بی بی نے مزید بتایا کہ امریکی تفتیشی ادارے ’ایف بی آئی‘ اور یورپی و امریکی کاروباری ادارے کے علاوہ جرمن نژاد یورپی سیاستدان ہنس یورگ ہابر کے ٹیلیفون بھی سنے گئے ہیں۔ برلن کے پبلک ریڈیو نے اپنی رپورٹ کے ذرائع کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق جرمن خفیہ ادارے نے مختلف شخصیات کے علاوہ کئی یورپی اور امریکی کمپنیوں کی بھی جاسوسی کی ہے۔ اِن میں امریکی اسلحہ ساز بڑی فیکٹری لاک ہیڈ بھی شامل ہے۔
اِس رپورٹ نے جرمن چانسلر کو ایک مشکل صورت حال کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ چانسلر کا دفتر ہی بیرونی ممالک میں جرمن خفیہ ادارے کی سرگرمیوں کا نگران ادارہ ہے۔ انگیلا میرکل نے سن 2013 میں امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کی سرگرمیوں پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ اِس حوالے سے وہ کہہ چکی ہیں کہ دوستوں کی جاسوسی کسی صورت قابل قبول نہیں۔
جرمن خفیہ ادارے ’بی این ڈی‘ نے جن افراد اور اداروں کی جاسوسی کی ہے، ان میں سن 2008 سے لے کر سن 2011 کے درمیان وہ اہم سفارتکار بھی شامل ہے، جنہیں یورپی یونین نے جارجیا میں اپنے مبصر مشن کا سربراہ متعین کیا تھا۔ یہی سفارتکار جارجیا جانے سے قبل برسلز اور ترکی میں بھی یورپی یونین کی جانب سے مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ اِس سے قبل جرمن میڈیا نے یہ ضرور رپورٹ کیا تھا کہ ملکی خفیہ ادارہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ساتھ مل کر جاسوسی کی سرگرمیوں میں شریک تھا۔ اِس معاونت کے عمل میں فرانسیسی صدر اور وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ یورپی کمیشن کو بھی ٹارگٹ کیا گیا تھا۔