جرمن دارالحکومت بون کے بجائے برلن، فیصلے کو تیس برس ہو گئے
20 جون 2021
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد وفاقی پارلیمان نے ملکی دارالحکومت کی منتقلی کا فیصلہ کیا تھا۔ 20 جون 1991ء کے روز بنڈس ٹاگ نے فیصلہ کیا تھا کہ جرمن دارالحکومت بون کے بجائے ایک بار پھر برلن ہو گا۔
اشتہار
آج اتوار کے روز سابقہ مغربی جرمنی کے دارالحکومت بون میں بنڈس ٹاگ کے ایک اجلاس میں کیے گئے اس اکثریتی فیصلے کو ٹھیک تین عشرے ہو گئے ہیں۔
تب جرمنی کی دو مختلف سیاسی نظاموں والی حریف اور جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کہلانے والی مشرقی اور مغربی ریاستوں کے 45 سال تک تقسیم کے بعد دوبارہ اتحاد کو ابھی آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے۔ مگر دارالحکومت کی برلن منتقلی کوئی یقینی فیصلہ تو بالکل نہیں تھا۔
جرمن اتحاد کی صورت میں سابقہ مشرقی جرمنی کا ریاستی علاقہ اور عوام دونوں (مغربی حصے پر مشتمل ) اس وفاقی جمہوریہ جرمنی میں شامل ہو گئے تھے، جس کا دارالحکومت 1949ء سے دریائے رائن کے کنارے واقع شہر بون چلا آ رہا تھا۔
پھر 20 جون 1991ء کے روز بون میں بنڈس ٹاگ کے ایک اجلاس میں 660 اراکین پارلیمان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ متحدہ جرمنی کا دارالحکومت بون ہی رہنا چاہیے یا اسے برلن منتقل کر دیا جائے: ملک کے مشرق میں واقع واپس اسی شہر میں جو 1871ء میں جرمن رائش کی بنیاد رکھے جانے سے لے کر 1945ء تک ملکی دارالحکومت رہا تھا۔
اشتہار
جرمن اتحاد کے معاہدے کی دوسری شق
سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد سے متعلق جو معاہدہ 31 اگست 1990ء کے دن طے پایا تھا، اس کی دوسری شق میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی تھی کہ جرمنی کا صدر مقام برلن ہے مگر دارالحکومت اور وفاقی پارلیمان سے متعلق فیصلہ جرمن اتحاد کی تکمیل کے بعد کیا جائے گا۔
پھر ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ بون شہر کو ہی دارالحکومت رکھنے کی حمایت بہت زیادہ ہو گئی اور بنڈس ٹاگ میں رائے دہی سے چار روز پہلے تک برلن کو دوبارہ ملکی دارالحکومت بنانے کی سیاسی مخالفت بہت نمایاں ہو گئی تھی۔
متحدہ جرمنی کے دارالحکومت کے طور پر بون اور برلن میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں 11 گھنٹے تک بحث ہوتی رہی تھی۔
پھر رائے شماری ہوئی تو نتیجہ بالکل واضح تھا: بون کی حمایت میں 320 ووٹ لیکن برلن کے حق میں 338 ارکان کی رائے۔
9 نومبر 1989 کو دیوار برلن گرا دی گئی تھی۔ اس شام برلن میں بھرپور جشن منایا گیا تھا۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو وہ تصاویر دکھائیں گے جہاں مغربی اور مشرقی برلن کی تقسیم کے آثار اب بھی باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مشرقی گیلری
دریائے اشپری کے ساتھ 1316 میٹرطویل اب بھی دیوار برلن قائم ہے۔ اسے دنیا کی سب سے طویل ’اوپن ایئر گیلری‘ کہا جا سکتا ہے۔ 1990 میں اس دیوار کو دنیا کے مختلف ممالک کے مصوروں نے پینٹ کیا تھا۔ یہ دیوار ذاتی خواہشات، امیدوں اور خوابوں کی عکاس ہے۔ یہاں لگائی گئی تصاویر دیوار برلن گرنے کے بعد کی خوشی اور آزادی کو ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/S. Lubenow
برلن وال میموریل
برلن کے کسی بھی علاقے میں سابقہ ’ڈیتھ اسٹرپ‘ اتنی واضح نہیں جتنی کہ یہاں ہے۔ اس یادگار میں اسی میٹر طویل برلن وال اور ایک گارڈ ٹاور کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ یہ کمپلیکس جرمنی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم یادگار ہے۔ یہاں برلن وال میں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
دیوار برلن کہا تعمیر کی گئی ؟
برلن شہر کے بہت زیادہ حصوں میں اب برلن وال نہیں دیکھی جا سکتی۔ مشرقی اور مغربی برلن اب ایک ہو چکے ہیں۔ شہر کے وسط میں پتھروں کے ذریعے ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں جہاں برلن وال تعمیر کی گئی تھی۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
چیک پوائنٹ چارلی
مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد دیکھنے کے لیے سیاح اس جگہ کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ اس چیک پوائنٹ سے صرف غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کو گزرنے کی اجازت تھی۔ اکتوبر 1961 میں برلن وال کی تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد اس جگہ امریکی اور سویت ٹینک آمنے سامنے آ گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kastl
آنسوؤں کا محل
اس مقام پر بہت دکھی الوداعی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں فریڈریش سٹراسے پر قائم سرحد سےسینکڑوں لوگ مشرقی برلن سے مغربی برلن گئے تھے۔ سیاح اُس راستے سے گزر سکتے ہیں جہاں پاسپورٹس چیک کیے جاتے تھے۔ سیاح اس گزرگاہ سے چلتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اس وقت شہریوں کو کتنی سختی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
تصویر: ullstein - Mrotzkowski
ہوہین شُون ہاؤزن میموریلl
سن1994 سے اس سابقہ ’ستاسی جیل‘ کو کمیونسٹ آمریت کے دوران متاثرین کی یادگار بنا دیا گیا تھا۔ سیاحوں کو بتایا جاتا ہے کہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کس طرح سے لوگوں کو قید رکھتی تھی اور تفتیش کے دوران کیسے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ تفصیلات سابقہ قیدی بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
ٹوئیفل بیرگ لسننگ اسٹیشن
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس جگہ کو ملبہ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارات کے ملبہ کے ذریعے مغربی برلن کے سب سے اونچے مقام پر ٹوئیفلبرگ کی تعمیر کی گئی تھی۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی قومی سکیورٹی ایجنسی اس مقام کو ’لسسننگ اسٹیشن‘ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ اس مقام پر وارسا معاہدے میں شریک ممالک کے عسکری پیغامات سنے جا سکتے تھے۔
تصویر: Ullstein/Getty Images
گلینیکے برج
آپ سمجھتے ہوں گے کہ شاید جاسوسوں کا تبادلہ صرف فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن برلن اور پوسٹ ڈام کے درمیان اس پل پر ایسے تین آپریشنز کیے گئے ہیں۔ سٹیون اسپیلبرگ نے اس تاریخی مقام کو اپنی فلم ’بریج آف سپائز‘ میں بھی استعمال کیا تھا۔
تصویر: imago/Camera4
جرمن سپائے میوزیم
پوسٹ ڈامر پلاٹز پر بنایا گیا یہ عجائب گھر آپ کو جاسوسی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس عجائب گھر میں خاص توجہ سرد جنگ کے دوران برلن کی سرگرمیوں پر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
9 تصاویر1 | 9
شوئبلے کی انتھک کوششیں
بنڈس ٹاگ کے موجودہ اسپیکر وولفگانگ شوئبلے اس وقت بھی بنڈس ٹاگ کے رکن تھے اور ان کی عمر 48 برس تھی۔ انہوں نے اراکین پارلیمان کی اکثریت کو برلن کے انتخاب کا قائل کرنے کے لیے انتھک کوششیں کی تھیں۔
تب ان کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ جرمنی میں عوامی مزاحمتی تحریک، دیوار برلن کی تعمیر، دیوار کے گرائے جانے سے لے کر جرمنی کے دوبارہ اتحاد تک بھی اگر سب کچھ صرف برلن ہی میں ہوا، تو کوئی دوسرا ایسا شہر ہو ہی نہیں سکتا، جو اتحاد، آزادی، جمہوریت اور پورے جرمنی کی علامت بن سکے۔
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
ولی برانٹ کی طرف سے خاص طور پر اظہار تشکر
بون میں بنڈس ٹاگ کے اس اجلاس میں شوئبلے نے جو تقریر کی تھی، وہ جرمنی کی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ متاثر کن خطابات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
اسی لیے بعد میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سابق چانسلر اور نوبل امن انعام یافتہ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان ولی برانٹ خاص طور پر اٹھ کر وولف گانگ شوئبلے کے پاس گئے تھے اور انہوں نے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے شوئبلے کا دلی شکریہ ادا کیا تھا۔
آج تین عشرے پہلے کے جرمن پارلیمانی فیصلے کے حوالے سے وولف گانگ شوئبلے کہتے ہیں، ''میری رائے میں تو برلن کا بطور دارالحکومت انتخاب کیے بغیر آج ہم دوبارہ واقعی متحد ہو ہی نہیں سکتے تھے، بالکل نہیں۔‘‘
مارسیل فیُورسٹیناؤ (م م / ب ج)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔