جرمن ریاستی انتخابات میں اے ایف ڈی کی کامیابی کا امکان
1 ستمبر 2019
یکم ستمبر کو جرمن ریاستوں سیکسنی اور برانڈن برگ میں نئی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان ریاستی اسمبلیوں کے نتائج جرمن سیاسی منظر پر دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کی دو مشرقی ریاستوں کے تقریباً ساڑھے چھ ملین ووٹرز نئی ریاستی اسمبلیوں کو منتخب کریں گے۔ ان ریاستوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اِس کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو ملکی سطح پر تیرہ فیصد کی عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں صوبوں میں بظاہر اسلام مخالف اور مہاجرین مخالف اس سیاسی جماعت کی عوامی پذیرائی میں بتدریج اضافے کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیکسنی میں اس کی مقبولیت کی شرح پچیس فیصد اور برانڈن برگ میں اکیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
ان دونوں ریاستوں میں چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو اے ایف ڈی کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ سیکسنی میں دونوں جماعتیں اپنی انتخابی مہم میں مختلف وعدوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف رہی تھیں۔ برانڈن برگ میں عوامی ووٹ ہمیشہ سے منقسم ہوتے رہے ہیں اور امکاناً اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
جرمن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سیکسنی اور برانڈن برگ میں نتائج کچھ بھی ہوں لیکن اتوار یکم ستمبر کی شام 'اے ایف ڈی‘ کی سیاسی قوت کو مزید استحکام حاصل ہو گا۔ یہ اضافہ یقینی طور پر جرمنی کے سیاسی منظر پر گہرے اثرات کا حامل ہو گا اور مختلف حلقوں میں اسے واضح طور پر محسوس کیا جائے گا۔
ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ سیکسنی یا برانڈن برگ میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی صوبے میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت بننے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔
ماہرین کے مطابق انتخابی نتائج کے بعد یہ اہم ہو گا کہ کون سی جماعت کس کے ساتھ حکومت سازی کی ڈیل طے کرے گی۔
سیکسنی میں دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو برسراقتدار ہے اور برانڈن برگ میں سابقہ حکومت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے ریاستی حکومت تشکیل دی تھی۔
کرسٹینا بوراک (عابد حسین)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔