جرمن ریاست باویریا میں پولنگ، میرکل کی مقبولیت کا امتحان
14 اکتوبر 2018
جرمنی کی جنوب مشرقی ریاست باویریا میں آج ریاستی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ اس ریاست میں چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو طویل عرصے سے حکمران ہے۔ تاہم اس مرتبہ اس کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمنی کی جنوب مشرقی ریاست باویریا میں آج اتوار 14 اکتوبر کو ہونے والے ریاستی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ساڑھے نو ملین یعنی 95 لاکھ کے قریب ہے۔ ان انتخابات کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی عوامی مقبولیت کے لیے ایک امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔ باویریا میں چانسلر میرکل کی حلیف سیاسی جماعت سی ایس یو حکمران ہے۔ گزشتہ 56 برسوں کے دوران محض پانچ برس ایسے تھے جب یہ جماعت حکومت سے باہر رہی۔
تاہم تازہ عوامی جائزوں کے مطابق سی ایس یو کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی۔ رواں ہفتے جاری کیے جانے والے جائزوں کے مطابق آج اتوار کے روز ہونے والے انتخابات میں سی ایس یو کو 33 سے 34 فیصد تک ووٹ ملیں گے۔ ان انتخابی جائزوں کے مطابق سی ایس یو کی قریب ترین حریف ماحول دوست جماعت گرین پارٹی رہے گی جسے 18 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زی ہوفر چانسلر میرکل کی اتحادی حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔ مہاجرت کے معاملے پر ان کے سخت نکتہ نظر کے باعث رواں برس کے آغاز میں سی ایس یو اور میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اسی باعث ان انتخابات کو زی ہوفر کے قومی سیاست کے کردار کے بارے میں ایک ریفرنڈم کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
چانسلر انگیلا میرکل نے رواں ہفتے پوچھے گئے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا کہ آیا باویریا کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج ان کی حکومت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ میرکل کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ ان کا قدامت پسند سیاسی اتحاد ’مشکل وقت‘ کا شکار ہے اور انہیں امید ہے کہ سی ایس یو کے حق میں بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
سی ایس یو کی انتخابی مقبولیت میں کمی ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دائیں بازو کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ AFD کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے جاری ہونے والے انتخابی جائزوں کے نتائج کے مطابق یہ جماعت 10 سے 14 فیصد تک ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔
سی ایس یو کو کم ووٹ ملنے کے نتیجے میں امکان یہی ہے کہ اسے باویریا ریاست میں حکومت بنانے کے لیے ایک اتحادی جماعت کی ضرورت ہو گی۔ باویریا کے زیادہ تر ووٹرز سی ایس یو اور گرین پارٹی کے اتحاد کے حق میں ہیں تاہم باویریا کے حکومتی سربراہ مارکوس سوئیڈر اس امکان کو رد کر چکے ہیں۔
باویریا کی ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کا عمل شام چھ بجے تک جاری رہے گا جس کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔