جرمن ریاست باڈن وورٹمبرگ کے اسکولوں میں برقعے پر پابندی
22 جولائی 2020
جرمنی کی ریاست باڈن وورٹمبرگ میں حکام نے اب اسکول کی طالبات کے چہروں کے ڈھکنے پر بھی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ استانیوں کے نقاب یا برقع پہننے پر پہلے سے ہی یہ پابندی عائد ہے۔
اشتہار
مغربی جرمنی کی ریاست باڈن وورٹمبرگ کی حکومت نے اسکولوں میں چہرے کو مکمل طور ڈھکنے والے برقعے یا نقاب کے پہننے پر پابندی عائد کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ نقاب سے متعلق اس نئے اصول کو ایک ایسے وقت نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب جرمنی میں مسلمانوں کے نقاب پہننے یا پردے کے لیے پوری طرح سے چہرے کو ڈھکنے سے متعلق جہاں گرما گرم بحث جاری رہی ہے وہیں ہیمبرگ کی ایک عدالت نے شہر میں عائد اس طرح کی پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔
باڈن وورٹمبرگ کی شہری کاؤنسل نے اسکول میں اساتذہ پر ایسے لباس پہننے پر پہلے ہی سے پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے چہرہ مکمل طور ڈھک جاتا ہو اور اسی طرز پر اب اسکول کی طالبات کو بھی نقاب یا برقع پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ریاستی وزیر اعلی اور گرین پارٹی کے سرکردہ رہنما ونفریڈ کریٹشمن کا کہنا ہے کہ چہرے کا مکمل طور پر پردہ آزاد معاشرے کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی اسکولوں میں مکمل طور پر چہرہ ڈھکنا شاذ و نادر بات ہے تاہم ان اکا دوکا واقعات کے لیے بھی فیصلہ کرنا ضروری تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی سطح پر، جہاں طلبہ بالغ ہوتے ہیں، وہاں اس طرح کی پابندی سے متعلق سوال قدرے پیچیدہ ہے۔ فی الوقت یہ اصول ریاست کے پرائمری اور سیکندڑی اسکولوں کے لیے ہی ہے۔
نقاب پر بحث اور گرین پارٹی میں اختلافات
جرمنی میں جو افراد نقاب پہننے یا پردے کے لیے چہرے کو مکمل طور پر ڈھکنے کی مخالفت کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ اس طرح کی پابندی لڑکیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان پر اس کے لیے زور زبردستی کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت میں شامل جولیا کلوکنیر سمیت قدامت پسند جماعتوں کے سرکردہ رہنما ملک گیر سطح پر برقعے یا نقاب پر پابندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Kalandarov
10 تصاویر1 | 10
گرین پارٹی میں اس امر پر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں تاہم اسکولوں میں اس پابندی کے وہ حامی ہیں اسی لیے انہوں نے اس کی حمایت کی۔ باڈن وورٹمبرگ میں گرین پارٹی کی رہنما سانڈرا ڈیٹر اور اولویئر ہلڈین برانڈ برقع اور نقاب کو ماضی میں ''جبر و ظلم کی علامت بتا چکے ہیں۔''
لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اصول و ضوابط اور سختیوں سے جرمنی میں مسلم معاشرے کے حاشیے پر آنے کا خدشہ ہے۔ ہیمبرگ میں حال ہی میں ایک مسلم طالبہ نے اس کے خلاف کیس دائر کیا تھا اور قانونی لڑائی کے بعد عدالت نے اسے ایسے لباس کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ حالانکہ عدالت نے اپنے تبصرے میں یہ بھی کہا کہ اگر سرکاری اسکولوں کے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی
جائے تو اس صورت میں ایسی پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ اور اب مقامی سیاست داں اس طرح کے قوانین میں تبدیلی کے لیے سرگرم ہیں۔
لیکن گرین پارٹی میں مہاجرین کے امور سے متعلق ترجمان فلز پولاٹ کا کہنا ہے کہ مذہبی طرز کے علاماتی لباس کا استعمال جمہوری سماج کا ایک اہم فیچر ہے۔
حالیہ برسوں میں نیدر لینڈ، فرانس، ڈنمارک اور آسٹریا جیسے یورپی ممالک میں مکمل طور پر چہرے کے ڈھکنے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ گزشتہ برس اس حوالے سے جرمنی میں ایک سروے ہوا تھا اور اس میں بھی تقریباً54 فیصد جرمن شہریوں نے برقعے پر پابندی کی حمایت کی تھی۔
ص ز / ج ا (ای پی ڈی ڈی پی اے)
جرمن ریاست میں کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننےپر پابندی زیرغور