جرمن ریاست "خطرناک علاقوں" کی فہرست شائع کرنے پر مجبور
3 جون 2020
اے ایف ڈی کی درخواست کے بعد جرمنی کی آبادی والی سب سے بڑی ریاست نے 44 نام نہاد 'خطرے' والے علاقوں کی فہرست شائع کر دی ہے۔ یہ پارٹی تارکین وطن کے علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے بار بار ایسی معلومات کا استعمال کرتی رہی ہے۔
اشتہار
عدالتی حکم کے بعد، جرمنی کی ریاست ، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) کی حکومت نے تارکین وطن کی مخالف جماعت (اے ایف ڈی) کی جانب سے دی گئی ایک درخواست قبول کر لی ہے۔ اس میں ان اطراف اور گلیوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی دورخواست کی گئی ہے جنہيں پچھلی دہائی کے دوران پولیس "خطرناک زون" قرار دے چکی ہے۔
اس فہرست میں 44 علاقوں کے نام ہیں، ان میں سے صرف دس ابھی تک حکام کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل رہے ہیں۔ اہم امر یہ ہے کہ اس فہرست ميں شامل تقریبا تمام مقامات ميں تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "خطرناک" کی اصطلاح کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی شخص کو کسی مخصوص جگہ پر زیادہ خطرہ لاحق ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس بغیر کسی مخصوص وجہ کے ان علاقوں ميں شناخت چیک کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، "پولیس کو ‚خطرناک زون‘ کی نشاندہی کی اجازت ہے، بشرطیکہ, حقائق اس قیاس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ ان مقامات پر کچھ جرائم پیشہ افراد کی طرف سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے یا کوئی مجرم وہاں وقت گزارتا ہے۔
سيباستیان وائرمن ایک فری لانس صحافی ہيں۔ سن 2016 سے یہ جرمنی کی ریاست ، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہيں۔ ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، "اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس فیصلہ کرسکتی ہے اور خود 'خطرناک زون' کا تعین کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر وہ ایک رات کسی محلے میں منشیات کے کاروبار کا پتا لگا لے تو، وہ وہاں اس اصطلاح کو استعمال کرنا شروع کر سکتی ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
18 ملین باشندوں کے ساتھ، این آر ڈبلیو نہ صرف جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے، بلکہ یہاں متعدد بڑے شہر ایسے، جہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ جبکہ اس فہرست میں ڈسلڈورف اور آخن جیسے انتہائی کم جرائم والے شہر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب منظم جرائم کے لئے مشہور دیگر مقامات میں ڈوئس برگ، مارکسلوہ شامل ہيں۔ سيباستیان وائرمن کا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ، کچھ جگہوں پر، جیسے کے "ڈیوس برگ کے کچھ حصے 'ریاست کے خطرناک زون' نہیں ہيں اس لیے کے پولیس یہاں اپنے ان اختیارات کا استعمال نہیں کرتی۔
چند مقامی اخباروں نے سڑکوں اور محلوں کو "خطرناک زون" قرار دينے جیسے نظریات اور حقیقت کے مابین تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی وضاحت کرنے والے اصول پر سوال اٹھایا ہے۔ ايک مقامی اخبار نے لکھا "اس فہرست سے یہ بات واضح ہے کہ خطرناک زون کی پولیس کی تعریف مبہم ہے۔ مثال کے طور پر، مونشن گلاڈباخ میں فٹ بال اسٹیڈیم کے باہر خالی پارکنگ کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے، شاید اس ليے کہ غنڈے کھیل کے بعد وہاں لڑتے جھگڑتے ہیں۔" سيباستیان وائرمن کا کہنا ہے،"اگر آپ کسی سرکاری تصور کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں تو، آپ کو اس کی واضح تعریف کی ضرورت ہے۔"
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔