سسلی کی بندرگاہ پر اُترنے کےمنتظر سینکڑوں مہاجرین کی کسمپرسی
5 نومبر 2022
ہفتے کے روز جرمنی کے دو ریسکیو جہاز 300 مہاجرین کو لیے اٹلی کی مشرقی بندرگاہ سسلی پہنچے جہاں ان دونوں میں سے ایک کوانتہائی کمزور اور صحت کی تشویشناک صورتحال سے دوچار مہاجرین کو اتارنے کی اجازت دی گئی۔
اشتہار
اطلاعات کے مطابق اجازت نامے کی درخواست پر اطالوی حکام کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی ہے جبکہ اس دوسرے جہاز میں سوار مہاجرین کی صورتحال بھی مشکل بتائی جا رہی ہے اور سسلی کے اس ساحل پر کافی بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چُکی ہے۔ دراصل اٹلی کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے اپنی بندرگاہوں کو انسانی امدادی جہازوں کے لیے بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے سبب سسلی کی بندرگاہ تک پہنچنے والے ریسکیو جہازوں میں سوار مہاجرین کی صرتحال ناگفتہ بہ بتائی جا رہی ہے۔ 20 تارکین وطن پیاس کے سبب ہلاک، 30 بحیرہ روم میں لاپتہ
بحیرہ روم میں پھنسے مہاجرین
اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زائد تارکین وطن چار مختلف جہاروں پر سوار تھے۔ انسانی امداد کے یہ جہاز دراصل چند یورپی خیراتی تنظیموں نے بحیرہ روم کے رستے پر چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کوئی دو ہفتے قبل نازک صورتحال سے دوچار مہاجرین کو سمندر سے بچا لیا گیا تھا۔
جرمن ہیومینیٹیرین گروپوں 'ہیومینیٹی ون‘ اور 'رائز ابوو‘ نامی دو جہاز اٹلی کے پانیوں میں تھے۔ 'ہیومینیٹی ون‘ نامی جہاز پر 179 تارکین وطن سوار تھے۔ اس جہاز پر سوار نابالغ افراد یا بچوں اور ایسے افراد جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت تھی،کو جہاز سے اترنے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن 'رائز ابوو‘ نامی ریسکیو جہاز پر سوار 93 تارکین وطن تا حال سسلی کی بندرگاہ پر اترنے کی اجازت کے منتظر ہیں۔
اُدھر بحری جہاز 'جیو بیرنٹس‘ پر سوار 572 تارکین وطن اور وائیکنگ نامی دوسرے ریسکیو شپ 234 مسافر سوار تھے، بندرگاہ پراترنے کی اجازت ان سب کو بھی اجازت نہیں دی گئی۔
روم حکومت کا موقف
اٹلی کے وزیر داخلہ ماتیو پیانٹیڈوسی نے جمعے کو کہا کہ جرمن تنظیم SOS ہیومینیٹیرین کے زیر انتظام چلنے والا ریسکیو جہاز 'ہیو مینیٹیرین ون‘ پر سوار نابالغ افراد اور صحت کی ناز ک صورتحال سے دوچار افراد کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لیے اٹلی کے ساحل پر اترنے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ اجازت دراصل جرمنی اور فرانس دونوں کی جانب سے ان تارکین وطن کو محفوظ بندرگاہ فراہم کرنے کے مطالبے کے بعد دی گئی۔ برلن اور پیرس حکومتوں نے اٹلی حکام کو یہ اشارہ بھی دیا کہ اٹلی کو ان تمام تارکین وطن کا اکیلے بوجھ اُٹھانے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ تاہم دیگر تین جہازوں کے لیے ایسی کوئی شرائط پیش نہیں کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اٹلی کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کا یہ مطالبہ ہے کہ بحری جہازوں پر جس ملک کل پرچم لہرا رہا ہو ان ممالک کو چاہیے کہ ان جہازوں پر سوار تارکین وطن کو اپنے ہاں لے جائیں۔
دریں اثناء اٹلی کے انفرا اسٹرکچر کے وزیر ماتیو سلوینی نے، جو ماضی میں اٹلی کے وزیر داخلہ بھی رہ چُکے ہیں اور اپنی مہاجر مخالف سیاست اور پالیسیوں کے لیے مشہور ہیں، فیس بُک پر ایک ویڈیو میں موجودہ اطالوی حکومت کے موقف اور مہاجرین کو اٹلی کی بندرگاہوں پر اترنے کی اجازت کے بارے میں اس کی سخت ہدایات کی تعریف کی اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔