جرمن زبان بھی سیکھیے اور ہنر بھی، مہاجرین کے لیے خصوصی کورسز
شمشیر حیدر ڈی پی اے
12 اگست 2017
جرمنی میں مہاجرین کو روز مرہ کے معمولات اور ملازمتوں کے حصول کے لیے درکار تربیت فراہم کرنے کے لیے مہاجرین کو خصوصی ’کومبی کورس‘ کرائے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی میں ہزاروں مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
اشتہار
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے سربراہ ڈیٹلیف شیلے کے مطابق جرمنی آنے والے مہاجرین کو جرمن زبان اور ہنر سکھانے کے لیے تیار کردہ خصوصی ’کومبی کورسز‘ کرائے جا رہے ہیں۔ شیلے کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے سے لے کر اب تک اس پروگرام کے تحت اکیس ہزار سے زائد مہاجرین کو تربیت فراہم کی گئی ہے۔
جرمنی میں روز مرہ کے معمولات کے لیے بھی جرمن زبان سے واقفیت ناگزیر ہے اور مہاجرین کو ملازمتوں کے حصول میں بھی جرمن زبان سے ناواقفیت آڑے آتی ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی آنے والے مہاجرین کو کوئی نا کوئی ہنر سیکھنے کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔
کیا تارکین وطن کو جرمنی آتے ہی ملازمت مل جاتی ہے؟
00:47
اسی وجہ سے ان دونوں پہلوؤں کو یکجا کرتے ہوئے ملازمتوں کے وفاقی جرمن دفتر نے مہاجرین کے لیے خصوصی ’کومبی کورسز‘ شروع کر رکھے ہیں جن میں زبان سکھانے کے علاوہ ووکیشنل ٹریننگ بھی فراہم کی جاتی ہے۔
شیلے کے مطابق اس پرگرام کے تحت تینتالیس ہزار مہاجرین کو فنی تربیت فراہم کی جانا تھی۔ تاہم گزشتہ برس اکتوبر سے لے کر اب تک اکیس ہزار سے کچھ زائد مہاجرین ہی ان پرگراموں میں رجسٹر کیے گئے۔ شیلے کا کہنا ہے کہ خصوصی تربیتی پروگرام میں مہاجرین کی رجسٹریشن کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ دیگر اداروں کی جانب سے مہاجرین کے لیے تیار کردہ تربیتی پروگراموں میں باہمی ربط کی کمی ہے۔
شیلے کی مراد وفاقی جرمن ادارہ برائے مہاجرت و ترک وطن کی جانب سے مہاجرین کے لیے تیار کردہ ’سماجی انضمام کے پروگرام‘ اور جاب سینٹر کی جانب سے مہاجرین کی فنی تربیت کے لیے جاری پروگرام ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں شیلے نے کہا تھا کہ وفاقی جرمن دفتر روزگار کا تیار کردہ ’کومبی کورس‘ ملک میں موجود مہاجرین کو جرمنی میں نئی زندگی شروع کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ تاہم اب تک اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرنے والے مہاجرین کی تعداد ان کی توقع سے کافی کم رہی ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔