جرمن زبان کا طویل ترین لفظ اور چند دیگر دلچسپ حقائق
مقبول ملک سوَین ٹؤنیگیس / ع س
27 ستمبر 2020
دنیا بھر میں ایک سو تیس ملین انسان مادری یا دوسری زبان کے طور پر جرمن بولتے ہیں۔ مختلف ممالک میں اس وقت جرمن زبان سیکھنے والوں کی مجموعی تعداد پندرہ ملین سے زائد ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ طویل ترین جرمن لفظ کون سا ہے؟
اشتہار
جرمن زبان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے الفاظ کے معنی اور گرامر بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کی طرح جرمن زبان بولنے والوں میں بہت بڑی اکثریت ایسے انسانوں کی ہے، جن کی یہ مادری زبان ہے۔ لیکن دنیا بھر میں انسانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جن کے لیے جرمن دوسری یعنی تعلیمی حوالے سے باقاعدہ سیکھی گئی زبان ہے۔
جرمن بولنے والوں کی تعداد
جرمن زبان جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ پورے لکسمبرگ اور اٹلی کے چند حصوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چیک جمہوریہ، ڈنمارک، بیلجیم، ہالینڈ اور فرانس کے کچھ علاقوں میں ایسی جرمن نسلی اقلیتیں بھی آباد ہیں، جن کی مادری زبان جرمن ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں مادری یا دوسری زبان کے طور پر جرمن بولنے والوں کی تعداد 130 ملین بنتی ہے۔ مختلف براعظموں میں ایسے انسان جنہوں نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی حد تک جرمن سیکھی، ان کی مجموعی تعداد 290 ملین کے قریب ہے۔
پانچ یورپی ممالک کی سرکاری زبان
عالمی سطح پر اگر اپنی مادری زبان بولنے والے انسانوں کی زیادہ سے زیادہ مجموعی تعداد کو دیکھا جائے، تو جرمن 11 ویں نمبر پر آتی ہے۔ یورپی یونین میں یہ سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان بھی اس لیے ہے کہ جرمنی آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک ہے۔
مجموعی طور پر جرمن جرمنی کے علاوہ پانچ دیگر یورپی ممالک کی سرکاری زبان بھی ہے اور یورپی یونین کی سرکاری زبانوں میں سے ایک بھی۔
جرمن سیکھنے والوں کی تعداد
برلن میں وفاقی دفتر خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 15.4 ملین انسان جرمن زبان سیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ زبان یا تو اپنے اپنے ممالک میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کہلانے والے جرمن ثقافتی مراکز کے ذریعے سیکھ رہے ہیں یا پھر جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کی ویب سائٹ کے ذریعے، جس نے درجنوں مختلف ممالک کے مادری زبانیں بولنے والے شہریوں کے لیے انہیں انہی کی زبانوں میں جرمن سکھانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔
ان زبانوں میں پاکستان کی قومی زبان اردو بھی شامل ہے اور اردو بولنے والے ڈی ڈبلیو کی اردو ویب سائٹ کے ذریعے بھی جرمن سیکھ سکتے ہیں۔
جرمن زبان کہاں زیادہ سیکھی جا رہی ہے؟
جرمن سیکھنے والے زیادہ تر غیر ملکی آج بھی یورپی باشندے ہی ہیں۔ ان کے علاوہ افریقہ میں جرمن سیکھنے والوں کی تعداد گزشتہ چند برسوں میں بڑھ کر ڈیڑھ گنا ہو چکی ہے۔ مصر، آئیوری کوسٹ اور الجزائر وہ ممالک ہیں، جہاں 'ڈوئچ‘ یعنی جرمن سیکھنے والوں کی تعداد بڑھ کر 150 فیصد سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
ایشیا میں جرمن سیکھنے میں سب سے زیادہ دلچسپی چینی باشندے دکھا رہے ہیں۔ امریکا میں بھی بہت بڑی تعداد میں جرمن سیکھنے والے موجود ہیں، تاہم گزشتہ چند برسوں میں ان کی تعداد مقابلتاﹰ کم ہوئی ہے۔
جرمن زبان دنیا کے کن ممالک میں بولی جاتی ہے؟
کسی بھی زبان کا پھیلاؤ اس کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ جرمن زبان کا ایک انڈو یورپین زبان سے نئی سلیس جرمن زبان تک کا سفر انتہائی طویل تھا۔ اس کی تاریخ بہت ہی پیچیدہ ہے اور اس کے ارتقا میں گوئتھے اور لوتھر کا اہم کردار ہے۔
لِشٹن اشٹائن
یورپ کے تین ممالک میں جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ جرمنی، آسٹریا اور چھوٹا سا ملک لشٹن اشٹائن جس کا دارالحکومت وڈوز ہے ۔ اس ملک میں تقریباﹰ 35000 ہزار افراد جرمن بولتے ہیں، آسٹریا میں 7.5 ملین اور جرمنی میں، اس تعداد سے قریب دس گنا زیادہ۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/B. Claßen
سوئٹزرلینڈ
سوئٹرزلینڈ کی چار سرکاری زبانوں میں سے ایک جرمن ہے۔ پانچ ملین افراد، جو کہ اس ملک کی آبادی کا تقریباﹰ دو تہائی حصہ بنتے ہیں، جرمن زبان استعمال کرتے ہیں۔ جرمنی سے سوئٹزرلینڈ ہجرت کرنے والی نامور شخصیات میں مصنف ہرمن ہیسے اور ایرک ماریا ریمارک مشہور ترین نام ہیں۔ جلاوطنی کے بعد سے ریمارک نے اپنی زندگی کے آخری لمحات جھیل میگیور کے قریب اس ولا نماک(بنگلے) میں گزارے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لُکسمبرگ
اسی طرح لکسمبرگ میں بھی لکسمبرگش اور فرانسیسی کے ساتھ جرمن سرکاری زبان ہے۔ یہاں کے تقریباﹰ 470000 شہریوں کی مادری زبان جرمن ہے۔ لکسمبرگش سن 1984 میں قومی زبان مقرر کی گئی۔ مقامی ریڈیو اور ٹیلی وژن پر یہ بطور مواصلاتی زبان استعمال کی جاتی ہے تاہم لکھنے کے اعتبار سے ’ہوخ ڈوئچ‘ یعنی سلیس جرمن بھی کافی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/D. Renckhoff
بیلجیئم
بیلجیئم ان چھ ممالک میں سے ایک ہے جہاں ڈَچ اور فرانسیسی کے ساتھ ساتھ جرمن بھی سرکاری زبان ہے۔ مشرقی بیلجیئم کے صوبے لیوٹش کے شہر اوئپن میں تقریبا 75000 جرمن نژاد بیلجیئن رہتے ہیں۔ یورپ کے نو دیگر ممالک میں جرمن اقلیتوں کی ایک تسلیم شدہ زبان ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
فرانس
فرانس میں 1.2 ملین افراد جرمن بولتے ہیں، جو کہ زیادہ تر دونوں ملکوں کے مابین سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا لہجہ فرانکن اور المانک کے گہرے تلفظ پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ تصویر ماضی میں یہاں پر جرمن انتظامیہ کی یاد دلاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/H. Meyer zur Capellen
اٹلی
اطالوی صوبے جنوبی ٹیرول میں جرمن بطور اقلیتی زبان تسلیم کی گئی ہے۔ سن 1919 تک یہ صوبہ آسٹریا کا حصہ تھا۔ یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی (520000) کی مادری زبان جرمن ہے۔ سڑکوں کے نام بھی اطالوی اور جرمن زبان میں درج ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Kaufhold
اسپین
یورپ میں ہجرت کے لیے اسپین، جرمنوں کا سب سے پسندیدہ انتخاب رہا ہے۔ پورے ملک میں ڈیڑھ ملین جرمن باشندے آباد ہیں۔ کینیری اور مایورکا جیسے ہسپانوی جزیروں پر جرمن باشندوں کی کالونیاں آباد ہیں۔
تصویر: Imago Images/C.E. Janßen
ہالینڈ
نیدرلینڈ میں بہت سی جگہوں پر، جیسے کہ یہاں وینلو میں بھی، قومی زبان ڈچ کے علاوہ جرمن زبان بولی اور لکھی جاتی ہے۔ اور یہ صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں۔ ہالینڈ میں لگ بھگ 360000 جرمن باشندے مقیم ہیں۔ بہت سارے ڈچ اسکولوں میں جرمن بطور ’غیر ملکی زبان‘ سکھائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ANP/R. Engelaar
آئرلینڈ
آئرلینڈ میں بہت سارے ایسے مقامات ہیں جہاں جرمنوں کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں جرمن آرکیٹیکٹ ریشارڈ کاسل نے ڈبلن میں متعدد عمارتیں ڈیزائن کی ہیں۔ آئرلینڈ میں تقریباﹰ ایک لاکھ افراد جرمن زبان بولتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
اسرائیل
جرمنی سے اسرائیل ہجرت کرنے والے زیادہ تر یہودی باشندے جرمن زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ آجکل، ایک لاکھ اسرائیلی جرمن بولتے ہیں۔ نازی دور کے تلخ واقعات کا منفی اثر جرمن زبان پر بھی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جرمنی اور جرمن زبان میں اسرائیلیوں کی دلچسپی بڑھتی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Küchler
روس
روس میں جرمن زبان کی تاریخ 250 برس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ سن 1990 کے بعد 2.3 ملین روسی جرمنوں کا ایک بڑا حصہ جرمنی میں آباد ہوگیا۔ دوسری جانب روس میں 394000 جرمن نژاد افراد مقیم ہیں۔ تاہم ان تمام افراد کو جرمن زبان پر عبور حاصل نہیں ہے۔
دوسری عالمی جنگ سے قبل قزاقستان میں 92 ہزار سے زائد جرمن افراد مقیم تھے۔ تاہم عالمی جنگ کے دوران چار لاکھ چوالیس ہزار جرمنوں کو قزاقستان جلاوطن کر دیا گیا۔ آج قزاقستان میں جرمن نژاد افراد کی دو تہائی آبادی جرمن بولتی ہے، ان کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
جنوبی افریقہ
جرمن شہریوں کے لیے جنوبی افریقہ ہجرت کا ایک پسندیدہ ترین ملک ہے۔ کیپ ٹاؤن میں ’زاور کراؤٹ ہل‘ کے نام سے ایک جرمن قصبہ بھی واقع ہے۔ جنوبی افریقہ میں ایک لاکھ سے پانچ لاکھ کے درمیان جرمن باشندے مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Krüger
امریکا
کورونا وائرس کی وبا سے پہلے تک ہر سال دس ہزار جرمن شہری امریکا منتقل ہوتے تھے۔ اندازوں کے مطابق امریکا میں جرمن زبان بولنے والے 1.1 ملین افراد مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/J. Dabrowski
کینیڈا
سن 1940 سے چار لاکھ سے زائد جرمن شہری کینیڈا ہجرت کر چکے ہیں۔ کینیڈا میں جرمن زبان بولنے والوں کی کل تعداد 430000 بتائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/J. Schwenkenbecher
برازیل
برازیل کی دس فیصد آبادی کے آباواجداد جرمن ہیں، جو 19ویں اور 20ویں صدی میں معاشی اور سماجی وجوہات کی بنا پر ہجرت کر گئے تھے۔ برازیل میں 1.1 ملین افراد جرمن زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ برازیل کے شہر بلومیناؤ میں جرمن صوبے باویریا کا مشہور زمانہ اوکٹوبر فیسٹیول بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Tama
ارجنٹینا
20ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں جرمنوں نے اپنی زبان بہت سارے جنوبی اور وسطی امریکی ممالک تک پہنچا دی۔ ارجنٹینا میں ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ افراد جرمن زبان استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance / imageBROKER
پیراگوائے
جنوبی امریکی ملک پیراگوائے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد جرمن بولنے والے افراد مقیم ہیں۔ پیراگوائے ہجرت کے لیے جرمنوں کا ایک من پسند مقام رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/J. Dabrowski
نمیبیا
ان ممالک کے علاوہ جہاں جرمن سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے،جرمن زبان کا دنیا بھر کے تقریباﹰ 45 ممالک میں گھر ہے۔ جرمنی کی سابقہ کالونی نمیبیا میں نوآبادیاتی دور کے اثرات موجود ہیں۔ ڈھائی ملین کی آبادی والے اس ملک میں آجکل بیس ہزار افراد جرمن بولتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Imagebroker/U. Doering
19 تصاویر1 | 19
جرمن زبان کا طویل ترین لفظ
جرمن زبان میں یہ اصول عام ہے کہ کئی مختلف الفاظ کو ملا کر مرکب الفاظ یا ترکیبیں بنا لی جاتی ہیں۔ یوں ایسے الفاظ بھی وجود میں آتے ہیں، جو بہت طویل ہوتے ہیں۔ جرمن زبان کا طویل ترین لفظ 79 حروف پر مشتمل ہے، جو Rinderkennzeichnungsfleischetikettierungsüberwachungsaufgabenübertragungsgesetz ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے: ''مختلف طرح کے مویشیوں کے گوشت کی پہچان کے لیے ان پر لگائے جانے والے امتیازی تحریری نشانات کی نگرانی سے متعلقہ فرائض کی منتقلی کا قانون۔‘‘
اس طرح جرمن زبان کے اس ایک لفظ کا اردو میں لغوی مطلب کم از کم بھی ستائیس الفاظ کے ساتھ ممکن ہو سکا اور ابھی اس ایک لفظ کی کوئی تشریح نہیں کی گئی۔
اشتہار
سب سے زیادہ استعمال ہونے والے حرف
جرمن چاہے ہاتھ سے لکھی جائے یا فون یا کمپیوٹر پر ٹائپ کی جائے، اس زبان کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حرف 'ای‘ (E) ہے۔ اسی لیے ناقابل یقین بات یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر کے کسی جرمن کی بورڈ پر اگر کوئی ایک حرف سب سے پہلے ٹوٹتا ہے، تو وہ زیادہ تر 'ای‘ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حرف جرمن میں لکھے گئے کسی بھی طوالت کے متن میں سب سے زیادہ دہرایا جانے والا حرف بھی ہوتا ہے۔
جرمن کہاوتوں پر بنائی گئی منفرد تصاویر
جرمن زبان کی چند ایک منتخب کہاوتوں پر مبنی یہ تصاویر خاص طور پر ڈی ڈبلیو کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ کہاوتیں آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ کیا آپ کے ہاں بھی اس سے ملتی جُلتی کہاوتیں ہیں؟
تصویر: Antje Herzog
جو خوبصورت بننا چاہتا ہے، اُسے تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے
کہاوتوں کے جرمن ماہرین بھی نہیں جان پائے کہ یہ کہاوت کہاں سے آئی ہے لیکن اس کا پیغام انتہائی واضح ہے: خوبصورتی قربانی مانگتی ہے۔ لڑکیاں ماڈل بننے کے لیے بھوک برداشت کرتی ہیں، لوگ جسم پر ٹیٹو بنوانے کے لیے تکلیف سے گزرتے ہیں۔ انگریزی میں ملتا جُلتا محاورہ ہے، ’نو پین، نو گین‘۔
تصویر: Antje Herzog
سب سے پہلے چوہے کسی ڈوبتے جہاز کو چھوڑتے ہیں
قدیم زمانوں میں جب لوگ بحری جہازوں پر سفر کرتے تھے تو نیچے والے حصے میں کوئی شگاف پڑنے کی صورت میں چوہے اوپر آنا شروع ہو جاتے تھے۔ اس سے لوگ یہ ماننا شروع ہو گئے کہ چوہے کسی آنے والے ناخوشگوار واقعے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ آج کل یہ کہاوت اُن لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو مشکل وقت میں کسی ادارے کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے
جب مچھلی مرتی ہے تو اُس کا سر سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اور اسی لیے سب سے پہلے بُو بھی اُسی میں سے آتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے، جب قیادت ہی اپنی کمپنی یا اپنی سیاسی جماعت کو تباہ کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔ جرمنی میں اس کہاوت کو سن 2000ء میں شہرت ملی، جب سابق چانسلر گیرہارڈ شروئیڈر نے یہی کہاوت ایک دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کی۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
انسان اُس شاخ کو نہیں کاٹتا، جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے
اردو میں محاورے کی زبان میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے، اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لینا یا پھر جس تھالی میں کھانا، اُسی میں چھید کرنا۔ مطلب یہ کہ انسان ایسے بہت سے کام کر لیتا ہے، جن کے نتیجے میں اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ جرمن محاورہ ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
بولنا چاندی ہے، خاموشی سونا
اس جرمن کہاوت کے مطابق گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔ جب تک کوئی زبان نہ کھولے، ہم اُس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پاتے۔ جونہی وہ بولنا شروع کرتا ہے، اُس کی اصلیت ہم پر کھل جاتی ہے۔ لقمان حکیم کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے، جہاں ایک پوری سورۃ اُن سے موسوم ہے۔ اس دانا شخص کے ایک قول کا حوالہ تیرہویں صدی کے مسلمان عالم ابن کثیر نے دیا تھا، جو یہ تھا:’’اگر لفظ چاندی ہیں تو خاموشی سونا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Herzog, C. Dillon
ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے
مدد کہاں ختم ہوتی ہے اور کرپشن کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اس جرمن کہاوت کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، مثلاً ایک مالدار شخص کسی بدعنوان سیاستدان کو پیسہ دیتا ہے۔ اردو میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت کے لیے فارسی کی کہاوت من ترا حاجی بگویم، تُو مرا ملا بگو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضرب المثل تب استعمال ہوتی ہے، جب لوگ ایک دوسرے کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اگلا بھی جواب میں تعریفی کلمات کہے۔
تصویر: A. Herzog / C. Dillon
چھت پر بیٹھے کبوتر سے ہاتھ میں آ گئی چڑیا بہتر ہے
اردو میں کہا جاتا ہے کہ ’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘۔ اس جرمن کہاوت میں بھی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کہاوت لاطینی زبان و ادب سے آئی ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ہاتھ میں آ گیا پرندہ جنگل میں موجود ہزاروں پرندوں سے بہتر ہے۔ انگریزی میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے کہ ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جنگل میں موجود دو پرندوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
زیادہ باورچی کھانا خراب کر دیتے ہیں
اس جرمن محاورے کا مطلب سیدھا سادا ہے کہ اگر کسی واضح قیادت کے بغیر زیادہ لوگ کسی منصوبے کو سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تو وہ پایہٴ تکمیل کو کم ہی پہنچ پائے گا۔ جرمنی میں کام کی جگہوں پر ایسا اکثر نظر آتا ہے کہ کام خواہ جتنے مرضی لوگ انجام دیں، اُنہیں ہدایات کوئی ایک شخص ہی دیتا ہے۔ اُردو میں ’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘ کسی حد تک ملتی جُلتی کہاوت ہے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہییں
اس محاورے کی جڑیں جرمن سرزمین میں ہیں اور اس کے ڈانڈے بائبل کے اُس واقعے سے ملتے ہیں، جس میں حضرتِ عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایک گناہ گار کو پتھر صرف وہی مارے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ اسی لیے اس جرمن کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک گویا شیشے کے ایک گھر میں بیٹھا ہوا ہے، ایسے میں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
جھوٹ کے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں
یہ محاورہ کئی زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ چھوٹے پاؤں سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چھوٹے قد کے لوگ زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، جلد پکڑا جاتا ہے۔ اردو زبان میں تو سرے سے جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
ہر شخص اپنی قسمت خود بناتا ہے
اس کہاوت کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی قسمت خود ’گھڑ کر بناتا‘ ہے۔ اس کہاوت کی جڑیں جرمن زبان و ادب میں نہیں بلکہ پہلی بار یہ کہاوت تین سو قبل مسیح میں ایک رومی سیاستدان نے لاطینی زبان میں کہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان محنت اور کوشش سے جو چاہے، حاصل کر سکتا ہے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
11 تصاویر1 | 11
لسانیاتی ماہرین کے مطابق جرمن میں لکھی گئی کسی بھی تحریر مین 'ای‘ اتنی زیادہ مرتبہ استعمال ہوتا ہے کہ کسی بھی تحریر کا 17.5 فیصد حصہ اسی ایک حرف کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ اسی لیے محاورے کے طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے، ''حروف تہجی میں سے 'ای‘ کے بغیر تو جرمنوں کے منہ سے کوئی جملہ نکلتا ہی نہیں۔‘‘
سب سے کم استعمال ہونے والا حرف
جرمن زبان میں سب سے کم استعمال ہونے والا حرف 'کیو‘ (Q) ہے۔ اسی لیے جرمن کی بورڈ پر 'کیو‘ کی کی بہت ہی کم استعمال میں آتی ہے۔ لسانیاتی ارتقاء اور لسانیاتی اعداد و شمار کے محققین کے مطابق 'کیو‘ جرمن زبان میں اتنا کم استعمال ہوتا ہے کہ اوسطاﹰ اگر پانچ ہزار حروف ٹائپ کیے جائیں، تو ان میں صرف ایک مرتبہ کہیں 'کیو‘ نظر آئے گا۔
جرمن بُک پرائز جیتنے والے گیارہ نامور مصنفین
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔